کورونا وائرس کے خوراک اور صحت کے لیے چیلنج بننے کے درمیان گلوبل نیوٹریشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت قلت تغذیہ سے متاثر ہے اور موجودہ صورتحال میں اس میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
عالمی سطح پر قلت تغذیہ کے معاملے میں بھارت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ حالانکہ کم وزنی سے نمٹنے میں کچھ بہتری آئی ہے اور ملک نے سب سے کمزور افراد تک پہنچنے کے مقصد سے ’ابھینو‘ پروگرام بنائے ہیں۔
کووڈ۔19 وبا نے خوراک اور صحت نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے جو پہلے سے ہی محروم آبادی پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ خوراک اور صحت نظام میں فرق سے نمٹنے کے لیے قلت تغذیہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کو بچوں اور نوجوانوں میں کم وزنی کے مسئلے سے نمٹنے میں کچھ کامیابی ملی ہے۔ سنہ 2000 اور 2016 کے درمیان، لڑکوں میں یہ شرحیں 66.0 فیصد سے کم ہو کر 58.1 فیصد اور لڑکیوں میں 54.2 کم ہو کر 50.1 فیصد پر آ گئیں۔
حالانکہ یہ ہنوز لڑکوں کے لیے اوسط 35.6 اور ایشیا میں لڑکیوں کے لیے 31.8 فیصد کے مقابلے زیادہ ہے۔ غذا سے متعلق بیماریاں ایک مسئلہ بنی ہوئی ہیں جس میں زچگی عمرکی دو میں سے ایک خاتون اینیمیا کا سامنا کر رہی ہے۔ دوسری جانب سے زیادہ وزن اور موٹاپے کی شرح میں اضافہ جاری ہے جو 21.6 فیصد خواتین اور 17.8 فیصد مرد میں تقریباً ایک تہائی بالغوں کو متاثر کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں غیر برابری (عمد مساوات) کو دور کرنے کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔ حکومت نے اس جانب توجہ مرکوز کی ہے جس سے غیر ترقی یافتہ اضلاع میں صحت، پرورش، تعلیم، انفراسٹرکچر، کھیت اور آبی وسائل جیسے خدمات میں اصلاح کرنے میں مدد مل رہی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب حکومت کو آج سب سے کمزور طبقے کو قلت تغذیہ سے بچاانے کے لیے نہ صرف محنت کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے سبب کمزورو لوگوں کی قوت مدافعت بھی کمزور ہوگی اور ان میں بیماری کی زد میں آنے کا زیادہ اندیشہ ہوگا۔
رپورٹ میں خوراک میں تبدیلی لانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فی الحال کاشت کاری کے نظام میں دھان، گیہوں اور مکا وغیرہ پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ کاشت کاری میں تنوع اور غذائیت والے پیداروں پر زیادہ زور دیے جانے کی ضرورت ہے۔