شہر میں آئے دن خواتین سے متعلق گھناؤنے جرم کو انجام دیا جارہا ہے۔آہستہ آہستہ خواتین اپنے ساتھ ہورہے ظلم کے خلاف اور مجرموں سے نمٹنے کے لیے بہادری کے ساتھ مقابلہ کررہی ہیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان تمام تبدیلوں کو قبول کررہی ہیں۔
آج کی خواتین کے پاس خود کو محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ اب بندوقوں کی مدد لیں۔آئیے ان دیگر معاملات کو دیکھیں جن سے ہمیں امید ہے کہ وہ ایک عام خاتون کو مضبوط بنانے میں مدد کرسکتی ہے۔
نڈر
مغربی بنگال اور ایشا پور میں تقریبا دو برس قبل بھارتی حکومت نے خصوصی طور پر خواتین کے لیے اسلحہ تیار کرنا شروع کیا تھا، جس کی قیمت 56 ہزار روپے ہے۔کسی بھی خواتین کو اسے حاصل کرنے سے پہلے مقامی پولیس اسٹیشن اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں لائسنس کے لیے درخواست دینی ہوگی۔اس کے بعد اجازت نامہ کو آن لائن اپلوڈ کرنے کے بعد ہی انہیں جلد از جلد ریوالور فراہم کرایا جاسکتا ہے۔
یہ اسلحہ قانونی طور پر مہیا کرائے جاتے ہیں۔اس طرح کے دیگر ہلکے وزن والے ریوالور حکومت کے اجازت نامہ ملنے کے بعد خود دفاع کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔
نربھِک
کانپور کے آرڈیننس فیکٹری میں حکومت کے ذریعہ خواتین کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیے گئے نربھک ریوالور کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔نربھیا جنسی زیادتی معاملے سے پہلے اس ریوالور کی مینوفیکچرینگ کا آغاز کیا گیا تھا۔اسے بازار میں فروخت کے لئے دستیاب ہے، اس ریوالور کا وزن ہلکا ہے۔تقریبا تین ہزار لوگوں نے ڈیڑھ لاکھ کی قیمت میں اس ریوالور کو خریدہ ہے۔یہ پہلے سے لائسنس شدہ ریوالور ہے اور اس کے بعد اسے فیکٹری میں آرڈر دینے کے قریب 60 دن کے اندر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس بندوق کی بور صلاحیت 0.32(7.65 ملی میٹر) کی کیلیبر کے ساتھ 15 میٹر کے فاصلے پر نشانہ لگا سکتے ہیں اور اسے آسانی سے ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔
کرناٹک اور میسور کے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ضرورت مند خواتین کو 'سٹی سیولین رائفل ایسویسی ایشن' ونگ کے تحت اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دے رہی ہے۔سنہ 2016 میں ان میں سے بہت ساری خدمات کو پولیس نے خواتین کے دفاع کے طور پر شروع کیا تھا۔یہ ایسوسی ایشن تربیت فراہم کرنے کے علاوہ رائفل استعمال کرنے والوں کو تریبت دے گی ، ساتھ میں لائسنس حاصل کرنے کے لیے دستاویزات کی ضروریات کے بارے میں بھی رہنمائی کرے گی۔
این سی سی اور اسپورٹ کیڈٹس کو عام طور پر آپریٹںگ بندوق اور اسلحہ کی تربیت دی جاتی ہے۔اسی طرح ہر ایک کالج میں مارشل آرٹس کی تربیت کے ساتھ بندوق چلانے کی تربیت کو بھی شامل کرنا چاہیے خصوصا خواتین کو اس طرح کی ٹریننگ مہیا کرانی چاہیے۔
اس کو تعلیمی نظام کے حصے کے طور پر شامل کرنا چاہیے۔ ہر وقت اور ہر مقام پر عوام کی حفاظت کے لیے پولیس پر انحصار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بعد میں افسوس ظاہر کرنے کے بجائے لڑکیوں کو وقت کے ساتھ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے تعلیم دی جانی چاہیے۔ تمام خواتین کو بندوق کے استعمال کرنے کے طریقے کو سکھایا جانا چاہیے تاکہ اس قسم کے بھیانک جرائم دوبارہ نہ ہو۔
اس وقت خواتین میں اس قسم کے احساس میں اضافہ ہورہا کہ انہیں اپنے ساتھ ایک ہتھیار لے کر چلنا ضروری ہے ، تاکہ وہ پراعتماد اور مضبوطی کے ساتھ معاشرے میں پھیلے غیر سماجی عناصر سے مقابلہ کرسکیں۔
حقیت یہ ہے کہ جب ورنگل سے کمپیوٹر سائنس انسٹرکٹر نوشین فاطمہ نے اپنی حفاظت کے لیے بندوق کے لائسنس کے لیے درخواست دی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کے درمیان اس قسم کے خوف نے گھر کر لیا ہے۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ صبح سویرے ورنگل کے ایک تعلیمی ادارے میں اپنی ڈیوٹی کے فرائض کو انجام دینے کے لیے کازپیٹ سے گھر سے نکلتی ہیں لیکن انہیں واپس آتے آتے رات ہوجاتی ہے۔ لیکن دیشا حادثے کے بعد مجھے خوف نے جکڑ لیا ہے۔
انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ کسی خطرہ میں ہیں تو وہ کسی کے آنے اور اس کے بچانے کا انتظار نہیں کرسکتی ۔ان رونماء ہوئے حادثات کے بعد یہ لازمی ہے کہ ہر گھر کی لڑکیاں کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔لڑکیاں کچھ ہدایات کا خیال رکھیں جیسے اپنے لائیو لوکیشن کو اپنے گھر والوں کے ساتھ شیئر کریں، مصیبت کے وقت 100 نمبر ڈائل کریں، کالی مرچ کے اسپرے کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس طرح کا سامان رکھنے کا معمول بنالیں۔تاہم ایسی تمام ہدایات پر عمل کرنے کے باوجود ،اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ کوئی لڑکی محض اس طرح کے اقدامات سے محفوظ رہے گی۔
فاطمہ کو محسوس ہوا کہ جن لڑکیوں کو صبح سویرے اور رات کے اوقات میں اپنے کام کے سلسلے میں تن تنہا سفر کرنا پڑتا ہے ان لڑکیوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ہلکے وزن والی بندوق جیسے ہتھیار اپنے پاس رکھیں جو ان کے لیے مدد گار ثابت ہوں۔
اس خیال کے بعد فاطمہ نے 30 نومبر 2019 کو بندوق کے لائسنس کے لیے درخواست دی او ذاتی طور پر کازیپیٹ کے پولیس کمیشنر سے اجازت کے لیے درخواست دی۔فاطمہ نے تمام مطلوبہ دستاویزات کمیشنر کو پیش کرنے کے بعد آن لائن درخواست بھی دی۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کے مدنظر اسے یقین ہے کہ بندوق کا مطلوبہ لائسنس مل جائیگا، جس کے بعد وہ اپنی حفاظت کے لیے ایک بندوق خرید سکتی ہے اور سفر کے وقت کے فکر کیے بغیر پراعتماد ی کے ساتھ سفر کرسکتی ہے۔
اس معاملے میں فاطمہ کے گھر والوں کی جانب سے ملی حمایت پر فاطمہ خوشی کا اظہار کرتی ہیں، جو پہلے مثبت نہیں تھی۔
امید کرتے ہیں کہ خواتین پر ہونے والے مظالم میں ایک خاص کمی واقع ہوگی۔صرف اس علم سے کہ لڑکیاں اپنے پاس بندوق رکھ سکتی ہیں اور اس طرح کے کسی بھی صورت حال میں لڑکی کو بندوق استعمال کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔