ETV Bharat / bharat

پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ

بھارت کی آزادی میں گاندھی کے شاندار کردار کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں پارلیمانی جمہوری نظام کا مسیحا سمجھتے ہیں۔ آزادی کے بعد بھارت نے اپنی خودمختاری کی ایک لازمی حیثیت سے پارلیمانی جمہوریت اختیار کرلی ہے۔

پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ
author img

By

Published : Sep 12, 2019, 9:49 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 9:37 AM IST


لیکن کیا پارلیمانی جمہوریت کی موجودہ شکل وہی ہے جو گاندھی جی نے بنائی تھی؟ کیا پارلیمانی جمہوریت گاندھیائی نظریے پر عمل پیرا ہے؟

ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے، خاص طور پر جب بھارت خود مختار ملک کے طور پر 75 برس مکمل کر چکا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کو عموماً بہتر نظام تصور کیا جاتا ہے جہاں مختلف آراء اور طرز زندگی کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت سیاسی جنگوں کے بے رحمانہ نطام پر روک لگاتی ہے جس سے خونریزی اور سِول بغاوت جیسی باتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمانی جمہوریت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کی وجہ سے معاشی ترقی، معاشرتی مساوات و انصاف، آئین کی پاسداری وغیرہ کو پوری طرح سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ
پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ

بھارت نے پڑوسی ممالک کے برعکس کئی رکاوٹوں کے باوجود اس نظام کو کسی حد تک قابل قبول شکل میں برقرار رکھا ہوا ہے۔

گاندھی جی نے اپنی پُرمغز تحریر 'ہند سوراج' میں اُس وقت کے برطانوی پارلیمانی نظام کے نقائص کی نشاندہی کے لیے انتہائی سخت الفاط استعمال کیے جس پر انہیں کبھی افسوس نہیں ہوا۔

انہوں نے پارلیمانی یا قانون ساز ایوانوں کو کبھی بھی تبدیلی کا اصل مرکز نہیں سمجھا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے لاگو کی جانے والی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی اس وقت تک عمل میں نہیں آئے گی جب تک کہ اس کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔

لہذا ہر معاشرتی تبدیلی، عام لوگوں کی مشترکہ اتفاق رائے سے حاصل ہو یا باشعور سِول سوسائٹی کے کارکنان اس تبدیلی کو دُنیا کے سامنے رکھیں۔

یہی وجہ ہے کہ گاندھی نے پارلیمنٹ کو بغیر کسی مقصد کے چلنے پر نکتہ چینی کی۔

گاندھی جی نے پارلیمانی نظام پر سخت نکتہ چینی کی مگر اس نظام کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا تھا۔ آزادی کے بعد انہوں نے اپنے ان شاگردوں سے تعلقات منقطع نہیں کیے جنہوں نے اس نظام کو اپنایا تھا۔ انہوں نے نظام کی حدود کی نشاندہی کی تھی لیکن یہ بھی سمجھایا تھا کہ یہ واحد ممکنہ متبادل تھا۔

مضبوط متحد سیاسی شعور رکھنے والی سِول سوسائٹی کی موجودگی کے بغیر پارلیمانی جمہوریت نہ تو بدعنوانی کو کم کرسکتی ہے اور نہ ہی شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنا سکتی ہے۔

ریاست کی تشکیل کے عمل میں گاندھی جی نے ہر فرد کو اجتماعی نظام سے زیادہ اہم سمجھا۔ ان کی رائے میں افراد مل کر نظام کو بناتے ہیں نہ کہ نظام انسان کو بناتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی کبھی بھی اقتدار میں رہنے والوں یا ریاست کی تشکیل پر زور دینے والوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان نے لیے لوگ ہی ریاست اور جمہوریت کو بناتے ہیں، ایک ریاست کو وہاں کے لوگوں کو مختلف شرائط کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو حفاظت کے ساتھ ساتھ انفرادی آزادی کی حوصلہ افزائی کرے اور معاشرے میں پرامن طریقے سے تبدیلی لائے۔

گاندھی جی جس طرح کے سماجی نظام کی خواہش رکھتے تھے اس کی بنیاد بھارت کے دیہی علاقوں میں ہے۔ دیہی سماج کو گاندھی جی کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ دیہات کو ریاست کا نہیں بلکہ اقتدار کا مرکز بنایا جانا چاہئے۔

گاندھی جی نے کہا تھا کہ اس نظام کا مرکز دیہی سماج ہونا چاہیے، جسے انتخابی سیاست کی آلودگی سے دور رکھنا چاہیے۔


لیکن کیا پارلیمانی جمہوریت کی موجودہ شکل وہی ہے جو گاندھی جی نے بنائی تھی؟ کیا پارلیمانی جمہوریت گاندھیائی نظریے پر عمل پیرا ہے؟

ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے، خاص طور پر جب بھارت خود مختار ملک کے طور پر 75 برس مکمل کر چکا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کو عموماً بہتر نظام تصور کیا جاتا ہے جہاں مختلف آراء اور طرز زندگی کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت سیاسی جنگوں کے بے رحمانہ نطام پر روک لگاتی ہے جس سے خونریزی اور سِول بغاوت جیسی باتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمانی جمہوریت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کی وجہ سے معاشی ترقی، معاشرتی مساوات و انصاف، آئین کی پاسداری وغیرہ کو پوری طرح سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ
پارلیمانی جمہوریت پر گاندھی کا نظریہ

بھارت نے پڑوسی ممالک کے برعکس کئی رکاوٹوں کے باوجود اس نظام کو کسی حد تک قابل قبول شکل میں برقرار رکھا ہوا ہے۔

گاندھی جی نے اپنی پُرمغز تحریر 'ہند سوراج' میں اُس وقت کے برطانوی پارلیمانی نظام کے نقائص کی نشاندہی کے لیے انتہائی سخت الفاط استعمال کیے جس پر انہیں کبھی افسوس نہیں ہوا۔

انہوں نے پارلیمانی یا قانون ساز ایوانوں کو کبھی بھی تبدیلی کا اصل مرکز نہیں سمجھا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے لاگو کی جانے والی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی اس وقت تک عمل میں نہیں آئے گی جب تک کہ اس کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔

لہذا ہر معاشرتی تبدیلی، عام لوگوں کی مشترکہ اتفاق رائے سے حاصل ہو یا باشعور سِول سوسائٹی کے کارکنان اس تبدیلی کو دُنیا کے سامنے رکھیں۔

یہی وجہ ہے کہ گاندھی نے پارلیمنٹ کو بغیر کسی مقصد کے چلنے پر نکتہ چینی کی۔

گاندھی جی نے پارلیمانی نظام پر سخت نکتہ چینی کی مگر اس نظام کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا تھا۔ آزادی کے بعد انہوں نے اپنے ان شاگردوں سے تعلقات منقطع نہیں کیے جنہوں نے اس نظام کو اپنایا تھا۔ انہوں نے نظام کی حدود کی نشاندہی کی تھی لیکن یہ بھی سمجھایا تھا کہ یہ واحد ممکنہ متبادل تھا۔

مضبوط متحد سیاسی شعور رکھنے والی سِول سوسائٹی کی موجودگی کے بغیر پارلیمانی جمہوریت نہ تو بدعنوانی کو کم کرسکتی ہے اور نہ ہی شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنا سکتی ہے۔

ریاست کی تشکیل کے عمل میں گاندھی جی نے ہر فرد کو اجتماعی نظام سے زیادہ اہم سمجھا۔ ان کی رائے میں افراد مل کر نظام کو بناتے ہیں نہ کہ نظام انسان کو بناتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی کبھی بھی اقتدار میں رہنے والوں یا ریاست کی تشکیل پر زور دینے والوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان نے لیے لوگ ہی ریاست اور جمہوریت کو بناتے ہیں، ایک ریاست کو وہاں کے لوگوں کو مختلف شرائط کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو حفاظت کے ساتھ ساتھ انفرادی آزادی کی حوصلہ افزائی کرے اور معاشرے میں پرامن طریقے سے تبدیلی لائے۔

گاندھی جی جس طرح کے سماجی نظام کی خواہش رکھتے تھے اس کی بنیاد بھارت کے دیہی علاقوں میں ہے۔ دیہی سماج کو گاندھی جی کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ دیہات کو ریاست کا نہیں بلکہ اقتدار کا مرکز بنایا جانا چاہئے۔

گاندھی جی نے کہا تھا کہ اس نظام کا مرکز دیہی سماج ہونا چاہیے، جسے انتخابی سیاست کی آلودگی سے دور رکھنا چاہیے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 9:37 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.