ای ٹی وی بھارت نے پندرہویں صدی کے معروف گجراتی شاعر نرسینہ مہتا کے معروف بھجن سے ملک کو مربوط و متحد کرنے کا پیغام دیا ہے۔
'ویشنو جن تو، تینے رے کہیۓ، جے پیڑ پرائے جانے رے، پر دکھے اپکار کرے توئے من ابھیمان نہ آنے رے۔'
یعنی خدا سے اصل عقیدت تو یہ ہے کہ دوسروں کے آلام و مصائب کو محسوس کرکے اس سے نجات دلائے، لیکن اس کے لیے نہ تو کبھی احسان جتائے اور نہ ہی تکبر کا اظہار کرے۔
اڑیسہ کے گنجام ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہمما نے باپو کے نمک ستیہ گرہ میں اہم کردار ادا کیا، وہیں اترپردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ایچ کے مہتاب کی مضبوط قیادت میں اڑیسہ میں نمک ستیہ گرہ تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
سنہ 1930 بھارتی تاریخ کا ایک اہم سال تھا، کیوں کہ اسی برس گاندھی جی نے ساحلی قصبے ڈانڈی میں برطانوی سامراج کے جابرانہ نمک قانون کی خلاف ورزی کی تھی، جس کی وجہ سے ملکی پیمانہ پر سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
یہ وہی نمک ہے جس نے بھارت کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ گاندھی جی نے نمک کو آپسی اتحاد کا ایک اہم عنصر قرار دیا، کیونکہ ہر شخص ذات، نسل، مذہب، علاقے، زبان، یا معاشی حیثیت سے قطع نظر نمک کا استعمال کرتا ہے۔
باپو نے گاؤں کا دورہ کیا اور مقامی لوگوں سے بات چیت کی، اس طرح اڑیسہ میں اس تحریک کو تیز کیا۔ 'گنجام ضلع نے آزادی کی جدوجہد میں انوکھا کردار ادا کیا۔
سنہ 1930 میں جب مہاتما گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تو خطے میں نمک کے کاشت کاروں نے سمندر سے نمک کاشت کرنا چھوڑ دیا اور مہاتما گاندھی کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
باپو نے اس سے قبل دسمبر 1927 میں اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔ ان کے دورے کے بعد آزادی کے متوالے گاندھی جی سمیت ان کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لینے والے قدآور شخصیات کے لیے یہ مقام مشہور ہوگیا۔
مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو ، ڈاکٹر رادھا کرشنن اور شاستری جیسے عظیم رہنماؤں نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران رمبھا رائل پریسیڈنسی میں قیام کیا'۔
'گاندھی جی سنہ 1927 میں اور سنہ 1930 میں یہاں آئے اور انہوں نے رمبھا ریلوے اسٹیشن سے ہمما تک اجلاس میں شرکت کے لیے مارچ بھی کیا تھا۔ رمبھا رائل پریسیڈنسی ایک تاریخی جگہ ہے، جو اڑیسہ پریسیڈیینسی کی آزادی، اڑیا زبان کے تحفظ اور سول نافرمانی تحریک کی تاریخ سے مالا مال ہے'۔