کمیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنے خط کے ساتھ ملک بھر میں87 واقعات کی تفصیلات منسلک کی ہیں جن میں پولیس نے پرامن مظاہرین کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ واقعات یوپی، کرناٹک، جموں کشمیر، آسام، گجرات اور دہلی میں پیش آئے ہیں۔ صدر اقلیتی کمیشن نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ پولیس نے نہ صرف دفعہ 144 نافذ کیا، انٹرنیٹ اور موبائل کنکشن کاٹ دئیے بلکہ اس نے اس سے بھی آگے جاتے ہوئے پرامن مظاہرین پر بہت سی جگہوں مثلا جامعہ ملیہ اسلامیہ، میرٹھ، بجنور، سیماپوری، بنارس اورمنگلور وغیرہ میں مظاہرین کے ہاتھ ،پاؤں اور سر توڑے اور تقریباً دو درجن لوگوں کا قتل بھی کیا۔
یہی نہیں بلکہ پولیس والے گھروں میں گھس گئے اور وہاں جو ملا اسے تہس نہس کردیا۔ اس کے درجنوں ویڈیو موجود ہیں جن میں سے کچھ بائیکاٹ این آر سی کے فیس بک پیج پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر خان نے چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ نہ صرف ان غلط کار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے بلکہ مستقبل کے لیے ایک نمونہ قائم کردیا جائے کہ سپریم کورٹ اس طرح کا رویہ برداشت نہیں کرے گی تاکہ عام شہریوں کے شہری اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جاسکے۔