شمال مشرقی ریاست آسام میں اس بل کی زبردست مخالفت کی جارہی ہے اور بل کے خلاف پرتشدد مظاہرے اور جلوس نکالے جا رہے ہیں وہیں اپوزیشن بھی اس کے خلاف ہے لیکن غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی جماعتیں بل کی حمایت میں ہیں۔ حالانکہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کو لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میں بل کے پاس کرانے کی راہ آسان نہیں ہے۔
راجیہ سبھا کے اعداد وشمار
راجیہ سبھا میں کل اراکین پارلیمان کی تعداد 240 ہے جس میں این ڈی اے کے 117، یو پی اے کے 67 اور دیگر کے 56 اراکین پارلیمان ہیں اور بل کے پاس ہونے کے لیے 121 اراکین کے حمایت کی ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) کے سات اراکین پارلیمان بل کے حق میں ووٹ کریں گے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آںدھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کے دو اراکین ہیں جو بل کی حمایت میں ووٹ کرسکتے ہیں۔
اگر ان اعداد وشمارپر نظر ڈالیں تو یہ صاف ہو جاتا ہے کے این ڈی اے کو 125 اراکین پارلیمان کی حمایت ملتی نظر آرہی ہے۔ لیکن اعدادوشمار بدل بھی سکتے ہیں، این ڈی اے کی اتحادی جے ڈی یو کے چھ اراکین پارلیمان ہیں، جے ڈی یو نے لوک سبھا میں بل کی حمایت کی تھی جس کے بعد پارٹی کی جانب سے مختلف رد عمل سامنے آیا تھا اور بل کی حمایت میں پارٹی کے اندر اختلافات ہیں۔
وہیں شیو سینا نےتذبذب والی کیفیت پیدا کر دی ہے، لوک سبھا میں بل کی حمایت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے راجیہ سبھا میں حمایت کے لیے کچھ الگ ہی طرح کا اشارہ دیا ہے۔
راجیہ سبھا میں ٹی آر ایس کے چھ اراکین پارلیمان ہیں جو بل کے مخالف ہیںاور وہ اس کے خلاف ووٹ کریں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مزید پریشانی ہے بی جے ڈی نے اس بل کی حمایت تو کی ہے لیکن اس میں ترمیم کا بھی مطالبہ کیا ہے۔پارٹی نے سری لنکن تاملوں کو بھی اس بل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اے آئی اے ڈی ایم کے نے پہلے ہی سری لنکن تملوں کو بل میں شامل کرنے اور انہیں شہریت دینے کی مانگ کر چکا ہے۔
حکومت لوک سبھا میں بل کو آسانی سے منظور کرانے میں کامیاب رہی، لیکن راجیہ سبھا میں یہ راہ آسان نہیں ہے لوک سبھا میں تو حکومت نے اعداد و شمار جمع کر لیے تھے لیکن راجیہ سبھا میں اس بل کی حمایت کرنے والی جماعتوں سے ترمیم کے مطالبات سے نمٹنا ہوگا۔