ریاست اترپردیش کے شہر بنارس میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی میں گذشتہ روز شعبہ سنسکرت کے طلبا نے ایک مسلمان پروفیسر کی تقرری پر جم کر مظاہرہ کیا۔ طلبا کی مانگ ہے کہ غیر ہندو پروفیسر کو فوری طور پر برخاست کیا جائے، ورنہ وہ لوگ فیکلٹی چھوڑ دیں گے۔
5 نومبر کو بی ایچ یو کی انتخابی کمیٹی نے آچاریہ فیروز احمد کی تقرری سنسکرت ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کی ہے۔ دو دن بعد جب متعلقہ شعبے کے طلبا کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے وائس چانسلر آفس کے باہر احتجاج کرتے ہوئے مسلم پروفیسر کو برخاست کرنے کی مانگ کی۔
طلبا کا کہنا ہے کہ سنسکرت فیکلٹی کے ایک یادگاری پتھر پر لکھا ہوا ہے کہ غیر ہندو کا اس فیکلٹی میں داخلہ ممنوع ہے، البتہ ہندو مذہب کے جزو کہے جانے والے جین، بودھ، اور آریہ مذاہب کے افراد کو اجازت ہے۔ لہذا ہماری وائس چانسلر سے مانگ ہے کہ مقرر کیے گئے پروفیسر کو برخاست کیا جائے، ورنہ ہم لوگ فیکلٹی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
وہیں پراکٹوریل بورڈ کے رکن ڈاکٹر رام نارائن دیویدی کا کہنا ہے کہ تقرری قواعد کے مطابق بالکل شفافیت کے ساتھ ہوئی ہے، طلبا کا کہنا غلط ہے۔ تاہم ان کے میمورنڈم کو ہم وائس چانسلر تک پہچانے کا کام کریں گے۔
اس واقعے کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی کے پبلک انفارمیشن آفیسر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ پانچ نومبر کو وائس چانسلر کی صدارت میں انتخابی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں کئی امیدوار موجود تھے، لہذا سب سے قابل امیدوار کو منتخب کیا گیا۔
پریس ریلیز میں یہ بھی درج ہے کہ یونیورسٹی کی بنیاد اس مقصد سے کی گئی ہے کہ یونیورسٹی ذات پات، مذہب، جنسی تفریق سے پرے قوم کی تعمیر میں سب کو برابر کا حق دیا جائے گا۔ اس بات پر عمل یونیورسٹی کے ذریعہ شروع سے ہی کیا جارہا ہے۔