ریاست اترپردیش کے شہر بنارس میں ان دنوں ایک مسلم پروفیسر کی تقرری کو لے کر کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ جے پور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری بی ایچ یو کے شعبہ سنسکرت میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر رواں ماہ 6 نومبر کو ہوئی ہے۔ لیکن متعلقہ شعبے کے کچھ طلبا ان کی مخالفت میں گذشتہ 15 دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
جب معاملے نے طول پکڑا تو اس پر بی ایچ یو کے چانسلر و مدن موہن مالویہ کے پوتے جسٹس گریدھر مالویہ نے مخالفت کر رہے طلبا کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'بانیِ بی ایچ یو مدن موہن مالویہ ایک بڑی سوچ رکھتے تھے، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یقیناً اس تقرری کی حمایت کرتے'۔
وہیں پرینکا گاندھی نے ٹوئٹ کیا کہ ہماری زبانیں اور ثقافت ہماری خصوصیت ہیں، ہماری مضبوطی ہے۔ سنسکرت زبان میں ہی لکھا گیا ہے 'سروے بھونتو سوکھن' اس زبان میں وسعت ہے۔
ہمارے ملک کا آئین وسیع ہے۔ یونیورسٹی میں سنسکرت کوئی بھی استاد پڑھا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک اخبار میں شائع خبر پوسٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت ودیا دھرم میں دو ہفتہ پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے فیروز خان کی تقرری کے بعد ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ایک کمیونٹی نے ان کی مخالفت کی تھی جب کہ اب یونیورسٹی کے کچھ دیگر لوگ ان کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں۔
پرینکا گاندھی کے علاوہ اترپردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے بھی ٹوئٹ کے ساتھ ڈاکٹر فیروز خان کی حمایت کرتے ہوئے بی ایچ یو انتظامیہ پر سوال اٹھایا کہ تقرری معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا سست رویہ معاملے کو بے وجہ طول بنا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس پر حکومت بھی توجہ دے تو بہتر ہوگا۔
اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما سبرامنیم سوامی نے کہا کہ 'کیا کوئی مجھے بتلا سکتا ہے کہ کیوں بی ایچ یو کے کچھ طلبا کسی مسلمان کو سنسکرت پڑھانے سے روکنے کی مخالفت کر رہے ہیں، جب کہ ان کی تقرری پورے اصول کے ساتھ ہوئی ہے۔ بھارت کا مسلم ڈی این اے وہی ہے جو ہندوؤں کے ساتھ عام ہندووں کے باپ دادا کا ہے۔ اگر کچھ ضابطہ ہے تو اسے تبدیل کریں'۔