رام للا وراجمان کے وکیل سی این ویدناتھ نے آٹھوین دن جرح کو آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے کہا کہ متنازع جگہ کی کھدائی میں ملے باقیات کی تفصیلی جانچ سے یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ بابری مسجد یا تو رام مندر کے باقیات پر بنایا گیا تھا یا اسے گراکر۔
مسٹر ویدناتھن نے دلیل دی کہ کھدائی سے موصول اشیا اور دستاویزوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ متنازعہ مقام پر بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور اس مقام کی پاکیزگی برقرار رکھنی چاہئے۔ انہوںنے ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کھدائی کے دوران پتھر کی پٹیاں برآمد کی گئی تھیں، جس پر سنسکرت میں بارہویں صدی کے ریکارڈ موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ریکارڈ میں راجہ گووند چندر کا ذکر ہے جنہوں نے ساکیٹ ڈویژن پر حکومت کی تھی اور اجودھیا اس کی راجدھانی تھی۔ وہاں ایک بڑا ویشنو مندر بنایا گیاتھا۔
انہوںنے کہا کہ انڈین آرکالیوجیکل سروے (اے ایس آئی) محکمہ کی کھدائی میں برآمد اس پتھر کے سلیب پر لکھے گئے ریکارڈ کے ترجمہ کو نہ تو چیلنج دیا گیا ہے نہ ہی ریکارڈ کی صداقت پر سوال کھڑے کئے گئے ہیں ۔ سماعت جاری ہے۔