ETV Bharat / bharat

بابری مسجد کیس: سی بی آئی کو اگست تک فیصلہ سنانے کا حکم

ایودھیا میں بابری مسجد شہید کرنے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے لکھنؤ کی سی بی آئی کورٹ کو 31 اگست 2020 تک فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی ملزم ہیں۔

بابری مسجد کیس:سپریم کورٹ
بابری مسجد کیس:سپریم کورٹ
author img

By

Published : May 8, 2020, 8:27 PM IST

سپریم کورٹ نے ٹرائل کو پورا کرنے کے لیے 31 اگست 2020 تک کا وقت دیا ہے، کورٹ نے کہا ہے کہ لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت اگست کے آخر تک مقدمے کو پورا کرے اور فیصلہ سنائے اور کورٹ مقرر کردہ تاریخ کی خلاف ورزی نہ کرے۔

واضح رہے کہ اس معاملے میں بی جے پی کے قد آور رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور دیگر کے خلاف ٹرائل جاری ہے، جس کی میعاد میں سپریم کورٹ نے مزید توسیع کردیا ہے۔

خصوصی جج ایس کے یادو نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ٹرائل کی میعاد بڑھانے کی درخواست کی تھی۔

دراصل 19 جولائی کو سپریم کورٹ نے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت دیگر کے خلاف بابری مسجد شہید کیس کی سماعت کررہے لکھنؤ کی سی بی آئی کورٹ کے خصوصی جج کو حکم دیا تھا کہ وہ نو مہینے میں ٹرائل ختم کرکے فیصلہ سنائے۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 30 دسمبر کو سبکدوش ہورہے سی بی آئی جج ایس کے یادو کی مدت کار کو بھی ٹرائل پورا ہونے تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آر ایف نریمن کی صدارت والی بینچ نے حکم دیا تھا کہ جج چھ مہینے میں سماعت پوری کرے اور تین مہینے میں تحریری فیصلہ سنائے۔

اس تعلق سے خصوصی جج ایس کے یادو نے مئی میں ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ کو کہا تھا کہ 30 دسمبر 2019 کو وہ سبکدوش ہورہے ہیں جبکہ ٹرائل پورا ہونے میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں، جس پر بینچ نے کہا تھا کہ یہ ایک ہائی پروفائل معاملہ ہے اس ٹرائل کو متعلقہ جج کے ذریعے ہی پورا کیا جانا چاہیے۔

انیس اپریل 2017 کو جسٹس پی سی گھوش اور جسٹس آر ایف نریمن کی سپریم کورٹ بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے بری کیے جانے کے خلاف سی بی آئی کے ذریعہ دائر کردہ اپیل کی اجازت دے کر اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر 13 بی جے پی رہنماؤں کے خلاف سازش کے الزامات کو دوبارہ بحال کیا تھا۔

آئین کی دفعہ 142 کے تحت اپنے غیر معمولی آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بینچ نے رائے بریلی کی ایک مجسٹریٹ عدالت میں زیر التوا الگ مقدمے کا بھی منتقل کردیا اور اسے لکھنؤ سی بی آئی کورٹ میں مجرمانہ کارروائی کے ساتھ جوڑ دیا۔

مذکورہ عدالت نے اس معاملے میں دو سال میں روزانہ سماعت کرکے ٹرائل کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جج کا تبادلہ نہیں ہوگا۔

بینچ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک ملزم کلیان سنگھ کو راجستھان کا گورنر ہونے کے ناطے قانونی کارروائی سے مستثنی ہیں لیکن جیسے ہی وہ عہدے سے دستبردار ہوتے ہیں تب ان کے خلاف الزامات عائد کیے جائیں گے۔

یہ کیس چھ دسمبر 1992 کا ہے، جب آر ایس ایس کارکنان نے ایودھیا میں مارچ کیا اور بابری مسجد شہید کردی تھی، یہ معاملہ لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت میں چل رہا ہے، جس میں بابری مسجد شہید کرنے کے پیچھے ایک بڑی سازش ہے۔

بابری مسجد کی شہادت سے متعلق سبھی معاملوں میں پہلی ایف آئی آر، چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کرنے کے بعد درج کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے ٹرائل کو پورا کرنے کے لیے 31 اگست 2020 تک کا وقت دیا ہے، کورٹ نے کہا ہے کہ لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت اگست کے آخر تک مقدمے کو پورا کرے اور فیصلہ سنائے اور کورٹ مقرر کردہ تاریخ کی خلاف ورزی نہ کرے۔

واضح رہے کہ اس معاملے میں بی جے پی کے قد آور رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور دیگر کے خلاف ٹرائل جاری ہے، جس کی میعاد میں سپریم کورٹ نے مزید توسیع کردیا ہے۔

خصوصی جج ایس کے یادو نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ٹرائل کی میعاد بڑھانے کی درخواست کی تھی۔

دراصل 19 جولائی کو سپریم کورٹ نے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت دیگر کے خلاف بابری مسجد شہید کیس کی سماعت کررہے لکھنؤ کی سی بی آئی کورٹ کے خصوصی جج کو حکم دیا تھا کہ وہ نو مہینے میں ٹرائل ختم کرکے فیصلہ سنائے۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 30 دسمبر کو سبکدوش ہورہے سی بی آئی جج ایس کے یادو کی مدت کار کو بھی ٹرائل پورا ہونے تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آر ایف نریمن کی صدارت والی بینچ نے حکم دیا تھا کہ جج چھ مہینے میں سماعت پوری کرے اور تین مہینے میں تحریری فیصلہ سنائے۔

اس تعلق سے خصوصی جج ایس کے یادو نے مئی میں ایک خط لکھ کر سپریم کورٹ کو کہا تھا کہ 30 دسمبر 2019 کو وہ سبکدوش ہورہے ہیں جبکہ ٹرائل پورا ہونے میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں، جس پر بینچ نے کہا تھا کہ یہ ایک ہائی پروفائل معاملہ ہے اس ٹرائل کو متعلقہ جج کے ذریعے ہی پورا کیا جانا چاہیے۔

انیس اپریل 2017 کو جسٹس پی سی گھوش اور جسٹس آر ایف نریمن کی سپریم کورٹ بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے بری کیے جانے کے خلاف سی بی آئی کے ذریعہ دائر کردہ اپیل کی اجازت دے کر اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر 13 بی جے پی رہنماؤں کے خلاف سازش کے الزامات کو دوبارہ بحال کیا تھا۔

آئین کی دفعہ 142 کے تحت اپنے غیر معمولی آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بینچ نے رائے بریلی کی ایک مجسٹریٹ عدالت میں زیر التوا الگ مقدمے کا بھی منتقل کردیا اور اسے لکھنؤ سی بی آئی کورٹ میں مجرمانہ کارروائی کے ساتھ جوڑ دیا۔

مذکورہ عدالت نے اس معاملے میں دو سال میں روزانہ سماعت کرکے ٹرائل کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جج کا تبادلہ نہیں ہوگا۔

بینچ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک ملزم کلیان سنگھ کو راجستھان کا گورنر ہونے کے ناطے قانونی کارروائی سے مستثنی ہیں لیکن جیسے ہی وہ عہدے سے دستبردار ہوتے ہیں تب ان کے خلاف الزامات عائد کیے جائیں گے۔

یہ کیس چھ دسمبر 1992 کا ہے، جب آر ایس ایس کارکنان نے ایودھیا میں مارچ کیا اور بابری مسجد شہید کردی تھی، یہ معاملہ لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت میں چل رہا ہے، جس میں بابری مسجد شہید کرنے کے پیچھے ایک بڑی سازش ہے۔

بابری مسجد کی شہادت سے متعلق سبھی معاملوں میں پہلی ایف آئی آر، چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کرنے کے بعد درج کی گئی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.