آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ایودھیا کے دھنی پور مسجد میں نماز پڑھنے کو 'حرام' قرار دیا ہے، اس کے جواب میں ٹرسٹ کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں کسی حیدرآبادی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ کے انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن ٹرسٹ کے آفس میں 19 دسمبر 2020 کو آیودھیا کے دھنی پور میں پانچ ایکڑ اراضی پر تعمیر ہونے والی مسجد، ہسپتال، کمیونٹی کچن اور میوزیم کے ڈیزائن کی رونمائی صحافیوں کی موجودگی میں کی گئی تھی اور 26 جنوری کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے آیودھیا کے دھنی پور مسجد کو مسجد ضرار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دھنی پور مسجد میں نماز پڑھنا 'حرام' ہے۔ اس کے جواب میں ٹرسٹ کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں کسی حیدرآبادی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
'انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن' کے سیکرٹری و ترجمان اطہر حسین نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ایودھیا میں مسجد کے علاوہ ہسپتال اور انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر جس میں میوزیم، کمیونٹی کچن اور پبلشنگ ہاوس کی بنیاد 26 جنوری کو رکھ دی گئی ہے۔ اسد الدین اویسی کا بیان حیدرآباد میں سیاسی فائدہ کے لیے دیا گیا ہے۔
انہیں اودھ کی ساجھی وراثت اور گنگا جمنا تہذیب کے تعلق سے کوئی علم نہیں ہے۔ اطہر حسین نے کہا کہ 1857 کے انقلاب میں اودھ کے احمد اللہ شاہ نے ہندو مسلمانوں کو ساتھ لے کر انگریزوں سے اودھ کو آزاد کرایا اور ایک سال تک اودھ کی حکومت قائم رہی لہذا ہمیں کسی حیدرآبادی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ٹرسٹ کے ترجمان نے بتایا کہ 26 جنوری کو مسجد کی بنیاد کے وقت گاؤں کے بہت سارے لوگ موجود تھے اور وہ اس بات سے بہت خوش ہیں کہ ہمارے علاقے میں مسجد کے علاوہ ہاسپیٹل، کمیونٹی کچن تعمیر ہو گی، جس سے پورے اطراف کے لوگوں کو فائدہ ہوگا لیکن یہ بات اسد الدین اویسی کو نہیں معلوم۔
اطہر نے کہا کہ کیا ہسپتال بنانا حرام ہے؟ کیا غریبوں کے خوراک کے لیے کمیونٹی کچن بنانا حرام ہے؟ ہسپتال اور کچن کی سہولت فراہم ہونے سے پورے علاقے کی عوام کو فائدہ ہوگا۔ اطراف کی لڑکیوں اور خواتین کو بہترین غذا میسر کرانا ہمارا مقصد ہے کیا یہ بھی حرام ہے؟ اطہر حسین نے کہا کہ 'اودھ کے لوگوں کو کسی حیدرآبادی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔'
انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو خصوصی طور پر بتایا کہ دھنی پور گاؤں میں تعمیر ہونے والی مسجد کا کوئی نام نہیں رکھا گیا لیکن امید یہی ہے کہ گاؤں کے نام پر 'دھنی پور مسجد' رہے گا۔ قابل ذکر ہے کہ میڈیا پلیٹ فارم پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ 'مسجد کا نام احمد اللہ شاہ کے نام پر ہو گا جبکہ یہ خبر بے بنیاد ہے۔'
اطہر حسین نے کہا کہ ٹرسٹ کے پاس ایک تجویز آئی ہے کہ '1857 میں فیض آباد کے مجاہد آزادی احمد اللہ شاہ کے نام پر انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر کا نام بہتر ہوگا لیکن ابھی یہ فائنل نہیں ہوا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ مسجد کا نام 'احمد اللہ شاہ' نہیں رکھا گیا۔'
انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن ٹرسٹ کے ترجمان نے کہا کہ سبھی نے کہا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے لیکن اب اعتراض کر رہے ہیں۔ اطہر حسین نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح ہے کہ پانچ ایکڑ زمین سنی سینٹرل وقف بورڈ کو دی گئی ہے۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ نے انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن ٹرسٹ کی تشکیل دی اور پانچ ایکڑ زمین کی رجسٹری تقریبا 10 لاکھ روپے دے کر کروائی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ "پانچ ایکڑ زمین بابری مسجد کے متبادل ہے لہذا سب سے پہلے کورٹ کے فیصلے کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔"