سنۂ 2016 میں جالنہ پولیس نے تشدد پھیلانے کے الزام میں پانچ بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔اب تین سال ہونے کے بعد مہاراشٹر کی ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے ایک فیصلہ آیا ہے جس میں پانچوں بے قصور بتایا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے حکومت مہاراشٹر سے ان پانچوں نوجوانوں کو دو دو لاکھ روپیہ معاوضہ دینے کے لیے کہا ہے۔ نیز ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے فرضی طریقے سے معاملہ درج کرکے ان پانچوں نوجوانوں کی پٹائی کرنے کے بعد جیل میں بند کیا تھا۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر کے جالنہ میں 23 مارچ سنۂ 2016 کو ہولی کے تہوار کے دن کچھ غیرسماجی عناصروں نے مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے نمازیوں پر رنگ ڈال دیا تھا، جس کے بعد جالنہ شہر میں حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مسجد سے قریب ٹیلر کی دکان میں کام کرنے والے تین نوجوانوں اور راستے سے گزر رہے دو نوجوانوں کو حراست میں لے لیا تھا۔
پولیس نے جن نوجوانوں کو حراست میں لیا ان کا الزام ہے کہ پولیس نے انہیں جیل میں بند کر کے ان کی رحمی سے پٹائی کی تھی۔
نوجوانوں کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ بے گناہ نوجوانوں پر فرضی طریقے سے گرفتاری کرکے انہیں اپنی تحویل میں لے کر ٹارچر کیا گیا جس کے بعد سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ کی جانب سے ایک وکیل کو منتخب کر کے ان پانچوں نوجوانوں کی ایک ایپلیکیشن مہاراشٹر ہیومن رائٹس کمیشن میں دی گئی تھی۔
ان نوجوانوں کی پولیس حراست کے بعد کی ساری میڈیکل رپورٹس اور ضروری دستاویزہیومن رائٹس کمیشن مہاراشٹر کے حوالے کیے گئے جس کے بعد اس کی جانچ میں خلاصہ ہوا کہ ان پر لگے سارے الزامات غلط ہیں۔
اس کے بعد مہاراشٹر ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک آرڈر جاری کر کے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ ان سبھی نوجوانوں کو دو دو لاکھ روپے معاوضہ دے۔
ساتھ ہی ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے فرضی طریقے سے کیس بناکر ان نوجوانوں کو جیل میں بند کر دیا تھا۔
پانچوں بےگناہ کو انصاف دلانے کے لیے سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے مہاراشٹر یومن رائٹس کمیشن میں شکایت درج کروائی تھی جس کے بعد ان سب بے قصور نوجوانوں کو مالی امداد کے ساتھ ان پر لگے سارے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔