نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ منی پور میں تشدد بڑھانے کے لیے عدالت عظمیٰ کو پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی کورٹ نے واضح کیا کہ وہ تشدد کو ختم کرنے کے لیے قانون و انتظام کی مشینری کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ حکام کو صورتحال کو بہتر بنانے کی ہدایت دے سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں مختلف گروہوں سے مدد اور مثبت تجاویز لینے کی ضرورت ہوگی۔
بنچ نے منی پور کی موجودہ صورتحال پر ریاستی چیف سکریٹری کی طرف سے دائر اسٹیٹس رپورٹ پر غور کرنے کے بعد مختلف فریقوں سے کہا کہ "صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں منگل تک کچھ مثبت تجاویز دیں اور ہم مرکز اور منی پور حکومت سے اس پر غور کرنے کو کہیں گے۔" سپریم کورٹ نے منی پور حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ وہ جون میں جاری ایک سرکلر پر ہدایات لیں جس میں ریاستی سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی پر موجود ہونے یا تنخواہوں میں تخفیف کا سامنا کرنے کو کہا تھا۔
سپریم کورٹ نے تین جولائی کو منی پور حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ نسلی تشدد سے متاثرہ ریاست میں بحالی امن کو یقینی بنانے اور لوگوں کی بازآبادکاری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل کے ساتھ ایک تازہ ترین اسٹیٹس رپورٹ داخل کرے۔
مزید پڑھیں: Manipur violence منی پور میں انٹرنیٹ بند کرنے سے متعلق عرضی مسترد
ریاست میں میئتی اور کوکی برادریوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 150 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ تشدد سب سے پہلے تین مئی کو شروع ہوا جب ریاست کے پہاڑی اضلاع میں ایک قبائلی یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا تاکہ میئتی کمیونٹی کے درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔ منی پور کی آبادی میں میئتی کمیونٹی کی تعداد تقریباً 53 فیصد پر مشتمل ہے اور وہ زیادہ تر وادی امپھال میں رہتے ہیں۔ قبائلی ناگا اور کوکی آبادی کا 40 فیصد ہیں اور پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں۔ وہیں ریاست میں تشدد کے تازہ واقعات میں ایک پولیس اہلکار کے ہلاک اور 10 لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔