ممبئی: مہاراشٹر کے ممبئی میں لو جہاد کے اعدادو شمار معاملے پر سیاست تیز ہوتی جا رہی ہے۔ لو جہاد کو لے کر ریاستی وزیر منگل پربھات لودھا نے ایک لکھ کیسز کی بات کہی تھی، وہ بات ان کے ہی محکمہ سے جھوٹی نکلی۔ دراصل رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے ان کے محکمہ سے یہ جانکاری مانگی تھی کہ لو جہاد کے کتنے کیسز اب تک سامنے آئے ہیں، جس کے بعد ان کے محکمہ نے اس اور کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ان کے محمکہ نے جواب دیا کہ ایسے کسی معاملے کی جانکاری ان کے محکمہ کے پاس نہیں ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ لودھا کے پاس یہ جانکاری کہاں سے آئی۔
رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب جھوٹ ثابت ہوگیا تو اب اسمبلی میں جھوٹ بولنے والے ریاستی وزیر منگل پربھات لودھا استعفیٰ دیں، کیونکہ اُن کے اس شگوفے اور جھوٹ کی وجہ سے مہاراشٹر میں جگہ جگہ مسلم مخالف ریلیاں نکال کر نظم نسق کا خطرہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ اعظمی نے کہا کہ اورنگ آباد میں پولیس کی اجازت کے بغیر ریلی نکالی گئی، اورنگزیب کی قبر پر پیشاب کرنے اور بی بی کے مقبرے کے نیچے مندر کی بات کرنے والوں کے خلاف کب کارروائی ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور لو جہاد اسی کا حصہ ایک ہے۔
وہیں اس معاملے پر سابق رکن اسمبلی حسن بانو خلفے نے کہا کہ لو اور جہاد یہ الگ الگ الفاظ ہیں، اسے جوڑ کر لو جہاد، یہ خیال ہی غلط ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسمبلی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں لفاظی نہیں حقیقت پر فیصلے ہوتے ہیں۔ مشورے ہوتے ہیں کسی ریاستی وزیر کی جانب سے بولا گیا جھوٹ کا کتنا برا اثر پڑےگا۔ اس کی سنجیدگی کو دیکھنا چاہیے۔ جب ریاست میں ایسے کوئی معاملے ہی نہیں ہیں تو اسے جہاد کا نام دے کر گمراہ کرنا یہ غلط بات ہے۔
اس معاملے پر سابق رکن پارلیمنٹ حسین دلوائی نے کہا کہ میری زوجہ ہندو ہے، میں مسلمان ہوں تو کیا یہ جہاد ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ منگل پربھات لودھا بلڈر ہیں۔ انکی نظریں مسلمانوں کی زمینوں پر ہے۔ اسلئے اُنہیں مسلمانوں کو لیکر اس طرح کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لودھا کو اس جھوٹ کے لئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
وہیں دوسری طرف کانگریس لیڈر نانا پٹولے نے لو جہاد کو لے کر ودھان سبھا میں وزیر منگل پربھات کی تقریر پر سخت اعتراض کیا ہے۔ پٹولے نے کہا ہے کہ وزیر نے جس طرح کا بیان دیا ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ایسا بیان دے کہ وہ متعد مذاہب کے درمیان خلفشار پیدا کرتا ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ جس بابا نے تکارام مہاراج کی توہین کی ہے، ریاستی حکومت کو ان کے پروگرام کے بارے میں فیصلہ لینا چاہیے، کیونکہ کوئی سنت تکارام مہاراج کے بارے میں برا نہیں بول سکتا لیکن بی جے پی کا کہنا ہے کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور پروگرام ہوگا اور جب پروگرام ہوا تو ہم نے پروگرام کی مخالفت نہیں کی ہم نے حکومت کو بتایا تھا کہ سنت توکارام مہاراج جو ملک کے بڑے سنتوں میں سے ایک ہیں، ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اس بابا نے جس طرح تکارام کی توہین کی ہے ریاستی حکومت کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب پروگرام ہوا اور اس پروگرام میں لاکھوں لوگ آئے اور مہاراج کی ٹیم میں خواتین کے زیورات کی چوری کے بعد کیا بی جے پی والوں نے چور بھیجے۔ کیا انتظام کیا؟ اس قسم کا سوال یہاں اٹھتا ہے کہ اس سبھا میں مناسب انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ اور ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکا کر ہندوؤں کو اس طرح لوٹا جا رہا ہے، ہم یہ سوال ودھان سبھا میں اٹھائیں گے اور حکومت سے سوال کریں گے کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی خبردار کیا تھا تو آپ نے پہلے ہی ایسا نظام کیوں نہیں بنایا؟ پہلی بار جب وہ آئے تو انہوں نے ہمارے سنت توکارام مہاراج جی کی توہین کی۔