ETV Bharat / state

نواب سراج الدولہ کی مدد کرنے والے پٹواری کو کنگالی گھاٹ کا تحفہ

بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کا شمالی 24 پرگنہ کے کنگالی گھاٹ سے خاص تعلق رہا ہے۔جب پلاسی کی جنگ میں انہوں نے انگریزوں سے شکست کھائی تو اپنی جان بچانے کے لیے انہوں نے پٹنہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کی جان بچانے میں کنگالی گھاٹ کے پٹواری نے ان کی مدد کی تھی ۔اس مدد کے بدلے میں نواب نے کنگالی گھاٹ کی ملکیت ہمیشہ کے لئے انعام کے طور پر اس پٹواری کو دے دی۔

نواب سراج الدولہ کی مدد کرنے والے پٹواری کو کنگالی گھاٹ کا تحفہ
نواب سراج الدولہ کی مدد کرنے والے پٹواری کو کنگالی گھاٹ کا تحفہ
author img

By

Published : Oct 27, 2020, 8:44 PM IST

بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو سنہ 1757 میں پلاسی کے جنگ میں انگریزی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔اس جنگ نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور انگریزوں کے لئے ہندوستان پر حکومت کرنے کا راستہ صاف کردیا تھا۔جنگ میں شکست کے بعد بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو اپنی جان بچانے کے لئے مرشدآباد چھوڑنا پڑا تھا۔

نواب سراج الدولہ کی مدد کرنے والے پٹواری کو کنگالی گھاٹ کا تحفہ

سراج الدولہ جنگ ہارنے کے بعد پٹنہ جانا چاہتے تھےلیکن میر جعفر کے لوگوں نے انہیں راستے میں پکڑنے کی کوشش کی۔لیکن اپنی گرفتاری سے قبل سراج الدولہ اپنی اہلیہ لطف انشاء اور چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ میر جعفر کے لوگوں سے آنکھ بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

مرشدآباد سے نکل کر وہ شمالی 24 پرگنہ کے نواب گنج پہنچے تھے۔سراج الدولہ فرانسیسی کالونی چندن نگر جانا چاہتے تھے تاکہ وہ فرانسیسی گورنر جوسیف فرانکوئس ڈوپلیکس سے ملاقات کرسکے۔نواب گنج علاقے میں موجود کنگالی گھاٹ ہی چندن نگر جانے کا واحد راستہ تھا۔نواب گنج کا یہ علاقہ موجودہ دور میں گارولیا کہلاتا ہے، جو بیرکپور کمشنریٹ کا علاقہ ہے۔اس زمانے میں چندن نگر پر فرانسیسیوں کا قبصہ تھا۔

چندن نگر جانے کے لئے سراج الدولہ نے کنگالی گھاٹ کا استعمال کیا تھا۔اسی وجہ سے آج بھی اس گھاٹ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ واحد فیری گھاٹ ہے جو آج بھی ذاتی ملکیت ہے۔اس گھاٹ کے متعلق یہ بات عام ہے کہ اس گھاٹ سے بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ میر جعفر اور انگریزوں سے جان بچاتے ہوئے فرار ہوئے تھے۔

کنگالی گھاٹ کے ایک جانب شمالی 24 پرگنہ اور دوسری جانب ہگلی ضلع یے۔اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ آج بھی دریا کے دونوں جانب کے لوگوں میں عام ہے۔اس زمانے میں چندن نگر بنگال کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔کنگالی گھاٹ کے اس پار آج بھدریشور میونسپل کا تیلنی پاڑہ علاقہ ہے جہاں سے کچھ دوری پر چندن نگر واقع ہے۔

سراج الدولہ جب اپنے چند لوگوں کے ہمراہ کنگالی گھاٹ پہنچے تو اس وقت وہاں ایک پٹواری گوکل چند پاٹنی سے دریا پار کرانے کی درخواست کی، یہ پٹواری سراج الدولہ کو پہچان نہیں پایا، کیونکہ انہوں نے اپنا بھیش بدلا ہوا تھا، تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ سراج الدولہ کے جوتے دیکھ کر اس پٹواری کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ یہ کسی معمولی آدمی کے جوتے نہیں ہوسکتے ہیں۔جس کے بعد سراج الدولہ نے اس پٹواری کو مدد کرنے کے عوض انعام دینے کا وعدہ کیا۔اس وقت سراج الدولہ کے پاس قیمتی زیوارات تھے۔جس کے بعد پٹواری گوکل چند پاٹنی نے ان کے ساتھیوں کے ہمراہ دریا پار کرا کر ان کی جان بچانے میں مدد کی اور ایک رات کے لئے سراج الدولہ کو اس پٹواری نے اپنے مکان موہنی کوٹھی، جو آج بھی موجود ہے، میں پناہ دی تھی۔

سراج الدولہ نے اس احسان کے بدلے جب پٹواری سے کچھ انعام طلب کرنے کی بات کہی اور بدلے میں جب اسے قیمتی زیورات دینا چاہا، تو پٹواری نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی چیز دیں جس سے میری آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کر سکیں۔سراج الدولہ نے اسی وقت ایک وصیت لکھی اور کنگالی گھاٹ کی ملکیت ہمیشہ کے لئے انعام کے طور پر اس پٹواری کو دے دی۔آج ڈھائی سو سال بعد بھی کنگالی گھاٹ اسی پٹواری کے خاندان کی ذاتی ملکیت ہے۔

کنگالی گھات واحد فیری گھاٹ ہے جس کا ٹینڈر نہیں ہوتا ہے۔ گھاٹ سے متعلق یہ تاریخی واقعہ دونوں جانب کے ہر خاص عام کو زبانی یاد ہے۔اسی سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے گوکل چند پاٹنی کے اہل خانہ سے بات کی۔

گوکل چند کے پشت آج بھی یہ گھاٹ چلا رہے ہیں۔کنگالی گھاٹ کے موجودہ مالکان میں سے ایک سورنا لتا پرمانک نے بتایا کہ کنگالی گھاٹ گزشتہ 250 برسوں سے ان کی خاندانی ملکیت ہے۔اس گھاٹ سے ایک تاریخی واقعہ جڑا ہوا ہے۔ ہمارے اجداد نے بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو کشتی کے ذریعے دریا پار کروایا تھا۔اور ان کی جان بچائی تھی

ان کو ایک رات کے لئے ہمارے پرانے مکان موہنی کوٹھی میں چھپا کر رکھا تھا اور پھر صبح وہ چندن نگر کے گورنر کے پاس چلے گئے تھے۔اپنی جان بچانے کے عوض میں سراج الدولہ نے ہماے سسر کو کنگالی گھاٹ کی ملکیت تحفے میں دی تھی اور کہا تھا کہ اس کی ملکیت ہمیشہ تمہارے خاندان کے پاس ہو گی۔تمہاری آنے والی نسلیں اس سے استفادہ حاصل کرینگی۔

انہوں نے بتایا کہ سراج الدولہ نے یہ وصیت ایک تانبے کے طبق پر لکھ کر دی اور سرکاری مہر کے ساتھ فرمان جاری کیا تھا۔جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ یہ گھاٹ ہماری ذاتی ملکیت ہو گی اور اس پر کوئی قبصہ نہیں کر پائے گا۔

سورنا لتا کے بیٹے گوتم پرمانک نے بتایا کہ 1805 میں 2 اگست کو اس وقت کی انگریزی حکومت نے ایک نوٹیفیکشن جاری کرکے یہ گھاٹ ہمارے خاندان سے چھین لی تھی۔جس کے بعد ہمارے اجداد اس معاملے کو لیکر اس وقت کے انگریزی عدالت پہنچے اور سراج الدولہ کا سرکاری فرمان پیش کیا جس کو عدالت نے بحال کرتے ہوئے انگریزی حکومت کو ہمارے نقصان کے لئے معاوضہ دینے کی بھی ہدایت جاری کی لیکن عدالت نے تانبے کے طبق پر لکھا ہوا سراج الدولہ کا فرمان اپنے تحویل میں لے لیا اور گوکل چند کے بیٹے رام سندر پاٹنی کو ایک سند دی تھی۔

سراج الدولہ کا وہ فرمان آج بھی بنگال کے گورنر ہاؤس میں موجود ہے۔گوکل چند کے اہل خانہ نے ای ٹی وی بھارت کو وہ سند بھی دکھائی اس کے علاوہ 8 نومبر 1805 کا کلکتہ گیجٹ کا وہ اخبار بھی دکھایا جس میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی۔

اس سلسلے میں گارولیا کے ایک جانکار شخص قاضی صدرالدین نے بتایا کہ ان کے اجداد سے انہوں نے سنا ہے کہ اسی کنگالی گھاٹ کے راستے سے ہوکر سراج الدولہ چندن نگر گئے تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک بنگلہ ادیب کی کتاب کا بھی ذکر کیا جس میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

آج بھی کنگالی گھاٹ موجود ہے اور اکثر اس گھاٹ سے سراج الدولہ کے اس واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔آج یہ گھاٹ تیلنی پاڑہ اور گارولیا کو جوڑتا ہے۔یہ گھاٹ آج بھی اس تاریخی واقعہ کا گواہ ہے کیونکہ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آج بھی ذاتی ملکیت ہے اور عام طور پر فیری گھاٹ سرکاری ملکیت ہوا کرتے ہیں۔


بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو سنہ 1757 میں پلاسی کے جنگ میں انگریزی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔اس جنگ نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور انگریزوں کے لئے ہندوستان پر حکومت کرنے کا راستہ صاف کردیا تھا۔جنگ میں شکست کے بعد بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو اپنی جان بچانے کے لئے مرشدآباد چھوڑنا پڑا تھا۔

نواب سراج الدولہ کی مدد کرنے والے پٹواری کو کنگالی گھاٹ کا تحفہ

سراج الدولہ جنگ ہارنے کے بعد پٹنہ جانا چاہتے تھےلیکن میر جعفر کے لوگوں نے انہیں راستے میں پکڑنے کی کوشش کی۔لیکن اپنی گرفتاری سے قبل سراج الدولہ اپنی اہلیہ لطف انشاء اور چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ میر جعفر کے لوگوں سے آنکھ بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

مرشدآباد سے نکل کر وہ شمالی 24 پرگنہ کے نواب گنج پہنچے تھے۔سراج الدولہ فرانسیسی کالونی چندن نگر جانا چاہتے تھے تاکہ وہ فرانسیسی گورنر جوسیف فرانکوئس ڈوپلیکس سے ملاقات کرسکے۔نواب گنج علاقے میں موجود کنگالی گھاٹ ہی چندن نگر جانے کا واحد راستہ تھا۔نواب گنج کا یہ علاقہ موجودہ دور میں گارولیا کہلاتا ہے، جو بیرکپور کمشنریٹ کا علاقہ ہے۔اس زمانے میں چندن نگر پر فرانسیسیوں کا قبصہ تھا۔

چندن نگر جانے کے لئے سراج الدولہ نے کنگالی گھاٹ کا استعمال کیا تھا۔اسی وجہ سے آج بھی اس گھاٹ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ واحد فیری گھاٹ ہے جو آج بھی ذاتی ملکیت ہے۔اس گھاٹ کے متعلق یہ بات عام ہے کہ اس گھاٹ سے بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ میر جعفر اور انگریزوں سے جان بچاتے ہوئے فرار ہوئے تھے۔

کنگالی گھاٹ کے ایک جانب شمالی 24 پرگنہ اور دوسری جانب ہگلی ضلع یے۔اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ آج بھی دریا کے دونوں جانب کے لوگوں میں عام ہے۔اس زمانے میں چندن نگر بنگال کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔کنگالی گھاٹ کے اس پار آج بھدریشور میونسپل کا تیلنی پاڑہ علاقہ ہے جہاں سے کچھ دوری پر چندن نگر واقع ہے۔

سراج الدولہ جب اپنے چند لوگوں کے ہمراہ کنگالی گھاٹ پہنچے تو اس وقت وہاں ایک پٹواری گوکل چند پاٹنی سے دریا پار کرانے کی درخواست کی، یہ پٹواری سراج الدولہ کو پہچان نہیں پایا، کیونکہ انہوں نے اپنا بھیش بدلا ہوا تھا، تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ سراج الدولہ کے جوتے دیکھ کر اس پٹواری کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ یہ کسی معمولی آدمی کے جوتے نہیں ہوسکتے ہیں۔جس کے بعد سراج الدولہ نے اس پٹواری کو مدد کرنے کے عوض انعام دینے کا وعدہ کیا۔اس وقت سراج الدولہ کے پاس قیمتی زیوارات تھے۔جس کے بعد پٹواری گوکل چند پاٹنی نے ان کے ساتھیوں کے ہمراہ دریا پار کرا کر ان کی جان بچانے میں مدد کی اور ایک رات کے لئے سراج الدولہ کو اس پٹواری نے اپنے مکان موہنی کوٹھی، جو آج بھی موجود ہے، میں پناہ دی تھی۔

سراج الدولہ نے اس احسان کے بدلے جب پٹواری سے کچھ انعام طلب کرنے کی بات کہی اور بدلے میں جب اسے قیمتی زیورات دینا چاہا، تو پٹواری نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی چیز دیں جس سے میری آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کر سکیں۔سراج الدولہ نے اسی وقت ایک وصیت لکھی اور کنگالی گھاٹ کی ملکیت ہمیشہ کے لئے انعام کے طور پر اس پٹواری کو دے دی۔آج ڈھائی سو سال بعد بھی کنگالی گھاٹ اسی پٹواری کے خاندان کی ذاتی ملکیت ہے۔

کنگالی گھات واحد فیری گھاٹ ہے جس کا ٹینڈر نہیں ہوتا ہے۔ گھاٹ سے متعلق یہ تاریخی واقعہ دونوں جانب کے ہر خاص عام کو زبانی یاد ہے۔اسی سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے گوکل چند پاٹنی کے اہل خانہ سے بات کی۔

گوکل چند کے پشت آج بھی یہ گھاٹ چلا رہے ہیں۔کنگالی گھاٹ کے موجودہ مالکان میں سے ایک سورنا لتا پرمانک نے بتایا کہ کنگالی گھاٹ گزشتہ 250 برسوں سے ان کی خاندانی ملکیت ہے۔اس گھاٹ سے ایک تاریخی واقعہ جڑا ہوا ہے۔ ہمارے اجداد نے بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کو کشتی کے ذریعے دریا پار کروایا تھا۔اور ان کی جان بچائی تھی

ان کو ایک رات کے لئے ہمارے پرانے مکان موہنی کوٹھی میں چھپا کر رکھا تھا اور پھر صبح وہ چندن نگر کے گورنر کے پاس چلے گئے تھے۔اپنی جان بچانے کے عوض میں سراج الدولہ نے ہماے سسر کو کنگالی گھاٹ کی ملکیت تحفے میں دی تھی اور کہا تھا کہ اس کی ملکیت ہمیشہ تمہارے خاندان کے پاس ہو گی۔تمہاری آنے والی نسلیں اس سے استفادہ حاصل کرینگی۔

انہوں نے بتایا کہ سراج الدولہ نے یہ وصیت ایک تانبے کے طبق پر لکھ کر دی اور سرکاری مہر کے ساتھ فرمان جاری کیا تھا۔جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ یہ گھاٹ ہماری ذاتی ملکیت ہو گی اور اس پر کوئی قبصہ نہیں کر پائے گا۔

سورنا لتا کے بیٹے گوتم پرمانک نے بتایا کہ 1805 میں 2 اگست کو اس وقت کی انگریزی حکومت نے ایک نوٹیفیکشن جاری کرکے یہ گھاٹ ہمارے خاندان سے چھین لی تھی۔جس کے بعد ہمارے اجداد اس معاملے کو لیکر اس وقت کے انگریزی عدالت پہنچے اور سراج الدولہ کا سرکاری فرمان پیش کیا جس کو عدالت نے بحال کرتے ہوئے انگریزی حکومت کو ہمارے نقصان کے لئے معاوضہ دینے کی بھی ہدایت جاری کی لیکن عدالت نے تانبے کے طبق پر لکھا ہوا سراج الدولہ کا فرمان اپنے تحویل میں لے لیا اور گوکل چند کے بیٹے رام سندر پاٹنی کو ایک سند دی تھی۔

سراج الدولہ کا وہ فرمان آج بھی بنگال کے گورنر ہاؤس میں موجود ہے۔گوکل چند کے اہل خانہ نے ای ٹی وی بھارت کو وہ سند بھی دکھائی اس کے علاوہ 8 نومبر 1805 کا کلکتہ گیجٹ کا وہ اخبار بھی دکھایا جس میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی۔

اس سلسلے میں گارولیا کے ایک جانکار شخص قاضی صدرالدین نے بتایا کہ ان کے اجداد سے انہوں نے سنا ہے کہ اسی کنگالی گھاٹ کے راستے سے ہوکر سراج الدولہ چندن نگر گئے تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک بنگلہ ادیب کی کتاب کا بھی ذکر کیا جس میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

آج بھی کنگالی گھاٹ موجود ہے اور اکثر اس گھاٹ سے سراج الدولہ کے اس واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔آج یہ گھاٹ تیلنی پاڑہ اور گارولیا کو جوڑتا ہے۔یہ گھاٹ آج بھی اس تاریخی واقعہ کا گواہ ہے کیونکہ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آج بھی ذاتی ملکیت ہے اور عام طور پر فیری گھاٹ سرکاری ملکیت ہوا کرتے ہیں۔


ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.