ETV Bharat / state

AMU Removes Books of Maududi: مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹانے پر طلبہ کا اعتراض، انتظامیہ سے وضاحت طلب

جماعت اسلامی کے بانی اور ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابوں کو قابل اعتراض مانتے ہوئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نصاب سے ہٹانے پر طلبہ نے سخت اعتراض جتاتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ AMU drops works of 2 Islamic scholars from syllabus following allegation of ‘objectionable’ content

مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹانے پر طلبہ کا اعتراض
مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹانے پر طلبہ کا اعتراض
author img

By

Published : Aug 4, 2022, 9:59 AM IST

Updated : Aug 4, 2022, 3:29 PM IST

علی گڑھ: جماعت اسلامی کے بانی اور ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابوں اور مضامین کو قابل اعتراض مانتے ہوئے ہندوستان کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کتابوں میں جہادی نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ AMU Removes Books of Maududi

طالب علم

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیز میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ان کتابوں پر پابندی لگائی جائے جس میں جہاد پر مشتمل مواد موجود ہے، اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں حال ہی میں متنازع مصنفہ مدھو کشور سمیت 22 افراد نے جن کا تعلق تعلیم اور صحافت کے ساتھ رہا ہے، وزیراعظم نریندرمودی کو ایک خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مالی اعانت والی یونیورسٹیوں مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد میں داخل نصاب میں مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ ان میں نفرت انگیز مواد موجود ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم دفتر سے اس خط کے موصول ہونے یا اس تجویز پر کسی عملدرآمد کی کوئی اطلاع ملے بغیر ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس دانشوروں کی تالیفات کو نصاب سے ہٹادیا۔



اے ایم یو کے سابق طالب علم محمد عامر منٹو نے نصاب سے مولانا مودودی کے کتابوں کو ہٹانے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ابھی تک یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔،ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے متعلق جو وزیر اعظم کو خط لکھا گیا تھا یہ اس کا ہی ردعمل ہے، یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کوئی بھی راہ گیر وزیر اعظم کو خط لکھےگا تو آپ اپنے نصاب میں کتابوں کو شامل کریں گے یا ہٹادیں گے۔

محمد عامر نے مزید کہا اے ایم یو ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا اپنا ایکٹ ہے، یہ کوئی بنیئے کی دکان نہیں ہے جو کسی کی پسند اور نا پسند سے چلے گی، اے ایم یو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی چلتی ہے اور ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی چلےگی، اور اس وقت تک چلے گی جب تک ملک میں آئین کا نفاذ ہے ، کوئی بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹینگ نہیں ہوئی اور صدر شعبہ کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے قلم سے نصاب میں کوئی چیز شامل کرے یا ہٹادے۔


اے ایم یو کے ایک اور طالب علم محمد فرید نے اعتراض کرتے ہوئے کہا صرف وزیر اعظم سے شکایت کرنے سے نصاب کو تبدیل کرنا کہی سے بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے، کیونکہ نصاب سے کوئی بھی کتاب ہٹانے کا ایک اپنا خصوصی طریقہ ہوتا ہے، بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹینگ ہوتی ہے، اس میں ایکسپرٹ فیصلہ کرتے ہیں کہ نصاب سے کتابوں کو ہٹایا جائے یا نہیں اور ہٹایا جائے تو اسکی وجوہات دی جاتی ہیں؟

اے ایم یو شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سابق صدر شعبہ پروفیسر عبید اللہ فہد کا کہنا ہے "گزشتہ پچاس سالوں سے میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو پڑھ رہا ہوں، پڑھا رہا ہوں ان پر پی ایچ ڈی کروائی، میں نے کئی کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھی ہیں، مجھے ایک بھی لائن ان کی ایسی نہیں ملی جس میں دہشتگردی، تشدد یا زیر زمین سرگرمیوں کی حمایت ملی ہو۔ مولانا شروع سے لے کر آخر تک یہی کہتے رہے ہمیں اسلام کے لئے کام کرنا ہے، وہی طریقہ اپنانا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلام نے اپنایا۔ پرامن، جمہوری، آئینی طریقہ"۔

اے ایم یو طالب علم محمد حیدر علی نے نصاب سے مولانا مودودی کی کتابوں کو ہٹانے پر اعتراض جتا یا ہے ،اور یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں، طالب علم محمد حیدر علی نے نصاب سے مولانا مودودی کی کتابوں کو ہٹانے کے عمل کو نہایت ہی بدترین عمل بتایا۔

مزید پڑھیں:Books of Maulana Maududi Removed from Curriculum: اے ایم یو نے مولانا مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹایا

واضح رہے شعبہ اسلامک اسٹڈیز، پروفیسر محمد اسماعیل نے گزشتہ روز کیمرے پر کچھ بھی کہنے سے منع کرتے ہوئے بتایا "ہم نے مولانا مودودی کی کتابوں کو شعبہ نصاب سے بورڈ کی میٹینگ کے بعد ہٹادیا ہے"، اے ایم یو ترجمان پروفیسر شافع قدوائی نے بھی گزشتہ روز صحافیوں کو صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ "مولانا مودودی کی متنازعہ کتابوں تو نصاب سے ہٹا دیا ہے"۔

علی گڑھ: جماعت اسلامی کے بانی اور ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابوں اور مضامین کو قابل اعتراض مانتے ہوئے ہندوستان کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کتابوں میں جہادی نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ AMU Removes Books of Maududi

طالب علم

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیز میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ان کتابوں پر پابندی لگائی جائے جس میں جہاد پر مشتمل مواد موجود ہے، اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں حال ہی میں متنازع مصنفہ مدھو کشور سمیت 22 افراد نے جن کا تعلق تعلیم اور صحافت کے ساتھ رہا ہے، وزیراعظم نریندرمودی کو ایک خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مالی اعانت والی یونیورسٹیوں مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد میں داخل نصاب میں مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ ان میں نفرت انگیز مواد موجود ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم دفتر سے اس خط کے موصول ہونے یا اس تجویز پر کسی عملدرآمد کی کوئی اطلاع ملے بغیر ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس دانشوروں کی تالیفات کو نصاب سے ہٹادیا۔



اے ایم یو کے سابق طالب علم محمد عامر منٹو نے نصاب سے مولانا مودودی کے کتابوں کو ہٹانے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ابھی تک یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔،ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے متعلق جو وزیر اعظم کو خط لکھا گیا تھا یہ اس کا ہی ردعمل ہے، یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کوئی بھی راہ گیر وزیر اعظم کو خط لکھےگا تو آپ اپنے نصاب میں کتابوں کو شامل کریں گے یا ہٹادیں گے۔

محمد عامر نے مزید کہا اے ایم یو ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا اپنا ایکٹ ہے، یہ کوئی بنیئے کی دکان نہیں ہے جو کسی کی پسند اور نا پسند سے چلے گی، اے ایم یو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی چلتی ہے اور ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی چلےگی، اور اس وقت تک چلے گی جب تک ملک میں آئین کا نفاذ ہے ، کوئی بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹینگ نہیں ہوئی اور صدر شعبہ کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے قلم سے نصاب میں کوئی چیز شامل کرے یا ہٹادے۔


اے ایم یو کے ایک اور طالب علم محمد فرید نے اعتراض کرتے ہوئے کہا صرف وزیر اعظم سے شکایت کرنے سے نصاب کو تبدیل کرنا کہی سے بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے، کیونکہ نصاب سے کوئی بھی کتاب ہٹانے کا ایک اپنا خصوصی طریقہ ہوتا ہے، بورڈ آف اسٹڈیز کی میٹینگ ہوتی ہے، اس میں ایکسپرٹ فیصلہ کرتے ہیں کہ نصاب سے کتابوں کو ہٹایا جائے یا نہیں اور ہٹایا جائے تو اسکی وجوہات دی جاتی ہیں؟

اے ایم یو شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سابق صدر شعبہ پروفیسر عبید اللہ فہد کا کہنا ہے "گزشتہ پچاس سالوں سے میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو پڑھ رہا ہوں، پڑھا رہا ہوں ان پر پی ایچ ڈی کروائی، میں نے کئی کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھی ہیں، مجھے ایک بھی لائن ان کی ایسی نہیں ملی جس میں دہشتگردی، تشدد یا زیر زمین سرگرمیوں کی حمایت ملی ہو۔ مولانا شروع سے لے کر آخر تک یہی کہتے رہے ہمیں اسلام کے لئے کام کرنا ہے، وہی طریقہ اپنانا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلام نے اپنایا۔ پرامن، جمہوری، آئینی طریقہ"۔

اے ایم یو طالب علم محمد حیدر علی نے نصاب سے مولانا مودودی کی کتابوں کو ہٹانے پر اعتراض جتا یا ہے ،اور یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں، طالب علم محمد حیدر علی نے نصاب سے مولانا مودودی کی کتابوں کو ہٹانے کے عمل کو نہایت ہی بدترین عمل بتایا۔

مزید پڑھیں:Books of Maulana Maududi Removed from Curriculum: اے ایم یو نے مولانا مودودی کی کتابوں کو نصاب سے ہٹایا

واضح رہے شعبہ اسلامک اسٹڈیز، پروفیسر محمد اسماعیل نے گزشتہ روز کیمرے پر کچھ بھی کہنے سے منع کرتے ہوئے بتایا "ہم نے مولانا مودودی کی کتابوں کو شعبہ نصاب سے بورڈ کی میٹینگ کے بعد ہٹادیا ہے"، اے ایم یو ترجمان پروفیسر شافع قدوائی نے بھی گزشتہ روز صحافیوں کو صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ "مولانا مودودی کی متنازعہ کتابوں تو نصاب سے ہٹا دیا ہے"۔

Last Updated : Aug 4, 2022, 3:29 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.