اترپردیش کے رامپور میں امیر خسرو شخصیت کے مختلف پہلووں کے حوالے سے یک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ امیر خسرو کی شاعری اور موسیقی رامپور کی تہذیب و ثقافت کا کس طرح حصہ بنی اور رامپور رضا لائبریری میں امیر خسرو سے متعلق کیا کیا اقدام اٹھائے گئے ہیں؟ اس تعلق سے دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر زاکر حسین کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر رحمتی سے خصوصی بات چیت کی گئی۔
AMIR KHUSRAU، POET, MUSICIAN, COURTIER AND HISTORIAN
اردو شاعری اور موسیقی میں امیر خسرو کا نام اہمیت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ تحقیق کے شعبوں سے وابستہ محققین امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلووں کو منظر عام پر لاتے رہے ہیں۔ انہی تحقیق کاروں میں ایک نام دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں شعبۂ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ظہیر رحمتی کا بھی ہے۔ جنہوں نے امیر خسرو کی شخصیت اور ان کے فنی جہات پر اپنا مقالہ تیار کیا ہے۔
ڈاکٹر ظہیر رحمتی بنیادی طور پر ادب کی سرزمین رامپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ امیر خسرو کی شاعری اور موسیقی میں رامپور کی تہذیب و ثقافت کی جھلک سے متعلق دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر زاکر حسین کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر رحمتی سے خصوصی بات چیت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ امیر خسرو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے کہا کہ امیر خسرو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امیر خسرو کی فارسی شاعری فارسی زبان او دب کے ادبا و شعرا بہتر طورپر سمجھتے ہیں، اور ایران میں تو ان کی شاعری قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ لیکن ہندوستان میں امیر خسرو کی اہمیت ان کے ہندوی کلام یعنی اردو شاعری ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے جو موسیقانہ کارنامے انجام دیئے ہیں وہ بھی جداگانہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امیر خسرو نے اپنی موسیقانہ صلاحیتوں کے ذریعہ اردو زبان میں جو چاشنی پیدا کی ہے یہ ان کامنفرد کارنامہ ہے۔
مزید پڑھیں:امیر خسرو، مشترکہ تہذیب کی روشن علامت
ڈاکٹر ظہیر رحمتی نے کہا کہ رامپور میں افغانستان سے جو لوگ آئے تھے ان کی زبان پشتو تھی۔ لیکن امیر خسرو کا کارنامہ یہ ہے کہ امیر خسرو نے اپنی شاعری کو موسیقانہ رنگ دیکر اس کو عوام سے جوڑا، جس سے امیر خسرو کی دہلوی زبان اور لہجہ رامپور کے عوام کے درمیان رچ بس گیا۔ اسی طرح سے رامپور میں چہار بیت فن کا رواج بھی امیر خسرو کی شاعری اور موسیقی کا ہی نتیجہ ہے۔