سرینگر (جموں کشمیر) : جموں کشمیر انتظامیہ نے پہاڑی ضلع کشتواڑ میں زیر تعمیر ’رتلے پن بجلی پروجیکٹ‘ سے پیدا ہونے والی بجلی کو راجستھان سرکار کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور معاہدے کے مطابق راجستھان حکومت یہ بجلی چالیس برس تک خریدے گی۔ اس ضمن میں جموں کشمیر انتظامیہ کے اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، نیشنل ہیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن لمیٹڈ (این ایچ پی سی) اور راجستھان حکومت کے مابین چار جنوری کو جئے پور شہر میں معاہدہ طے ہوا ہے۔
اس تازہ معاہدے سے جموں کشمیر میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے مرکزی سرکار خاص کر جموں کشمیر انتظامیہ کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں جس وقت بجلی بحران سے لوگ جوجھ رہے ہیں، انتظامیہ یہاں کی پیدا شدہ بجلی کو بیرون ریاستوں کو فروخت کر ہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’جموں کشمیر انتظامیہ بجلی بحران کے بیچ ایسے اقدام کر رہی ہے جو لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے۔‘‘
ڈار نے کہا کہ ’’انتظامیہ کو عوام کے سامنے اس معاہدے کے اغراض و مقاصد واضح کرنے چاہئے کہ کن بنیادوں اور شرائط پر انہوں رتلے پن بجلی کو راجستھان سرکار کو بیچ ڈالا۔‘‘ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی( کے ترجمان ڈاکڑ ہر بخش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’جس وقت انتظامیہ کو یہاں کی عوام کو بجلی دستیاب کرنے کی ضرورت ہے، وہ بیرونی ریاستوں کے ساتھ بجلی فروخت کرنے کا معاہدے کر رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ پی ڈی پی کا یہ بنیادی منشور ہے کہ جموں کشمیر کے پن بجلی پروجیکٹ جو نیشنل ہیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن سے تمام پن بجلی پروجیکٹ واپس لائے اور ترجیحی بنیادوں پر پہلے یہاں کی عوام کو بجلی دستیاب رکھے۔
تاہم رتلے پن بجلی پروجیکٹ جموں کشمیر کا پہلا ایسا پروجیکٹ نہیں ہے جسکی بجلی جموں کشمیر انتظامیہ نے فروخت کی ہو۔ ماضی میں منتخب سرکاروں، بالخصوص نیشنل کانفرنس نے این ایچ پی سی کے ساتھ کئی معاہدے کئے تھے جن کی رو سے این ایچ پی سی، جموں کشمیر میں گیارہ پن بجلی پروجیکٹس کی تعمیر کرے گا۔ یہ معاہدے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے سنہ 2002 میں مرکزی کانگریس حکومت کے دوران وزارت بجلی سے کئے تھے جب وہ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے۔
این ایچ پی سی نے جموں کشمیر اور لداخ میں ابھی تک آٹھ پن بجلی پروجیکٹ تعمیر کئے ہیں جن کی کل بجلی پیداواری صلاحیت 2400 میگاواٹ ہے۔ ان پن بجلی پروجیکٹس میں ریاسی ضلع میں سلال (690 MW), اوڑی کے دو (720MW) اور گریز میں کشن گنگا (MW330) ہے۔ کشمیر میں این ایچ پی سی کے پن بجلی پروجیکٹس پر گزشتہ دو دہائیوں سے سیاست ہو رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کو حریف جماعتوں بالخصوص پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی نے ان معاہدوں کو منظوری دینے پر ہدف تنقید بنایا تھا۔ بلکہ پی ڈی پی نے این ایچ پی سی سے بجلی پروجیکٹ کی واپسی کو ہی پارٹی کے بنیادی اہداف میں شامل کیا تھا۔
جموں کشمیر کے اپنے کُل21 پن بجلی پروجیکٹس ہیں جن کی کل بجلی کی پیدوار 1200 میگا واٹ ہے۔ اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ایک منتظم نے ای ٹی وی بھارت کو اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’این ایچ پی سی کو بجلی پروجیکٹ تعمیر کرنے کے معاہدے ناگزیر ہے یا کسی بیرونی سرکار کے ساتھ بجلی فروخت کے معاہدے کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اسی رقم سے محکمہ اور اس کے پروجیکٹس چل رہے ہیں۔‘‘
مزید پڑھیں: رتلے ہائیڈرو پاؤر پروجیکٹ: سیاسی جماعتوں نے انتظامیہ کو ہدف تنقید بنایا
ان کا کہنا ہے کہ ان بجلی پروجیکٹس کی واپسی مشکل ہے کیونکہ جموں کشمیر انتظامیہ کے پاس انکو چلانے کی رقم دستیاب نہیں ہوگی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں لوگوں کو بجلی فیس ادا کرنا بھی ضروری ہے اور بجلی چوری سے بھی اجتناب کرنا ناگزیر ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جب تک لوگ بجلی منظم طریقے سے خرچ نہیں کریں گے، انکو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم ہونا ناممکن ہے۔