ETV Bharat / state

سی آئی کے نے نو افراد کے خلاف کارروائی کیلئے محکمہ داخلہ سے رجوع کیا - کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر

جموں و کشمیر پولیس کی کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر (سی آئی کے) نے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خرید و فروخت معاملے میں مبینہ طور پر ملوث حریت کانفرنس کے لیڈر اور دیگر آٹھ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے محکمہ داخلہ سے رجوع کیا ہے۔

سی آئی کے نے نو افراد کے خلاف کارروائی کے لئے محکمہ داخلہ سے رجوع کیا
سی آئی کے نے نو افراد کے خلاف کارروائی کے لئے محکمہ داخلہ سے رجوع کیا
author img

By

Published : Nov 7, 2021, 8:30 PM IST

دراصل رواں برس 18 اگست کو جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے سرینگر میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ پرس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جموں و کشمیر پولیس نے 4 افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے لیے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خرید و فروخت کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرر فنڈنگ سے متعلق ایک معاملہ بے نقاب کیا گیا ہے جس میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کیلئے پاکستان میں ایم بی بی ایس کروانے کی خاطر حریت کے ذریعے جموں و کشمیر کے طلبا کے لیے میڈیکل سیٹیں خریدی جاتی تھیں۔

دلباغ سنگھ کے مطابق اس کارروائی کے دوران جن 4 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، ان میں محمد اکبر بٹ عرف ظفر اکبر بٹ، فاطمہ شاہ، محمد عبداللہ شاہ اور سبزار احمد شیخ کے نام شامل ہیں۔

طفر اکبر ماضی میں حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر رہے ہیں اور سنہ 2000 میں وہ حزب کے اُس گروپ میں شامل تھے جنہوں نے اس وقت اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ بعد میں ظفر اکبر بٹ سیاسی منظر پر سرگرم ہوئے اور حریت کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ وہیں میر واعظ کی قیادت والی حریت کانفرنس نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ حریت کانفرس سیٹیں خرید و فروخت کرکے ٹرر فنڈنگ میں ملوث ہے۔

اطلاعات کے مطابق ظفر اکبر بٹ کے علاوہ آٹھ افراد بشمول جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کے خلاف سزا کے لئے پولیس نے حکام سے رجوع کیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران جموں و کشمیر سے درجنوں طلبہ کو پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کورس کیلئے داخلہ دیا گیا تھا۔ یہ سبھی طلبہ باضابطہ ویزا اور دیگر بین ملکی سفری لوازمات کو پورا کرنے کے بعد پاکستان چلے گئے ہیں۔ داخلے کے وقت حکومت ہند نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے لیکن 5 اگست 2019 کے بعد کی صورتحال کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

ان طلبہ کی تعداد کے بارے میں خبریں اس وقت منظر عام پر آئی تھیں جب گذشتہ سال کووڈ کے پھیلاؤ کے دوران وہ اپنے وطن واپس آئے اور انہیں کورنٹین مراکز میں رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شوپیان میں سرگرم عسکریت پسند زخمی حالت میں پایا گیا



اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت کے چیف سیکرٹری بی وی آر سبھرامنیم نے بڑی تعداد میں کشمیری طلبہ کے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے پر تعجب کا اظہار کیا تھا جس کے بعد پولیس کے ذریعے ان کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سارک معاہدے کے تحت بھی طلبہ کو ایک دوسرے کی یونیورسٹیز مین داخلہ دیا جاتا ہے۔

دراصل رواں برس 18 اگست کو جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے سرینگر میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ پرس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جموں و کشمیر پولیس نے 4 افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے لیے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خرید و فروخت کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرر فنڈنگ سے متعلق ایک معاملہ بے نقاب کیا گیا ہے جس میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کیلئے پاکستان میں ایم بی بی ایس کروانے کی خاطر حریت کے ذریعے جموں و کشمیر کے طلبا کے لیے میڈیکل سیٹیں خریدی جاتی تھیں۔

دلباغ سنگھ کے مطابق اس کارروائی کے دوران جن 4 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، ان میں محمد اکبر بٹ عرف ظفر اکبر بٹ، فاطمہ شاہ، محمد عبداللہ شاہ اور سبزار احمد شیخ کے نام شامل ہیں۔

طفر اکبر ماضی میں حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر رہے ہیں اور سنہ 2000 میں وہ حزب کے اُس گروپ میں شامل تھے جنہوں نے اس وقت اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ بعد میں ظفر اکبر بٹ سیاسی منظر پر سرگرم ہوئے اور حریت کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ وہیں میر واعظ کی قیادت والی حریت کانفرنس نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ حریت کانفرس سیٹیں خرید و فروخت کرکے ٹرر فنڈنگ میں ملوث ہے۔

اطلاعات کے مطابق ظفر اکبر بٹ کے علاوہ آٹھ افراد بشمول جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کے خلاف سزا کے لئے پولیس نے حکام سے رجوع کیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران جموں و کشمیر سے درجنوں طلبہ کو پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کورس کیلئے داخلہ دیا گیا تھا۔ یہ سبھی طلبہ باضابطہ ویزا اور دیگر بین ملکی سفری لوازمات کو پورا کرنے کے بعد پاکستان چلے گئے ہیں۔ داخلے کے وقت حکومت ہند نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے لیکن 5 اگست 2019 کے بعد کی صورتحال کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

ان طلبہ کی تعداد کے بارے میں خبریں اس وقت منظر عام پر آئی تھیں جب گذشتہ سال کووڈ کے پھیلاؤ کے دوران وہ اپنے وطن واپس آئے اور انہیں کورنٹین مراکز میں رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شوپیان میں سرگرم عسکریت پسند زخمی حالت میں پایا گیا



اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت کے چیف سیکرٹری بی وی آر سبھرامنیم نے بڑی تعداد میں کشمیری طلبہ کے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے پر تعجب کا اظہار کیا تھا جس کے بعد پولیس کے ذریعے ان کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سارک معاہدے کے تحت بھی طلبہ کو ایک دوسرے کی یونیورسٹیز مین داخلہ دیا جاتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.