ETV Bharat / state

گپکار الائنس اور جموں و کشمیر کا بدلتا سیاسی منظرنامہ

اپنی کھوئی ہوئی ساخت بچانے کے لئے مقامی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی۔ حالانکہ پہلے پہل سب خاموشی سے ہو رہا تھا لیکن بعد میں جب ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کا اعلان ہوا تو سیاسی گہما گہمی بھی شروع ہو گئی۔

گپکار الائنس اور جموں و کشمیر کا بدلتا سیاسی منظرنامہ
گپکار الائنس اور جموں و کشمیر کا بدلتا سیاسی منظرنامہ
author img

By

Published : Nov 19, 2020, 11:57 AM IST

جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی، عوامی جذبات اور بھارت نواز سیاست کے مابین لکیریں مدھم ہوگئی ہیں۔ تقریباً سبھی اہم سیاسی جماعتیں متحد ہو گئی ہیں، جس کا نام 'گپکار الائنس' رکھا گیا ہے، لیکن بی جے پی نے اسے 'گپکار گینگ' کا نام دیا ہے۔ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن میں شامل جماعتیں 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف متحد ہوئی ہیں۔

اس سے قبل، گپکار الائنس میں شامل سیاسی جماعتوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنانے یا این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کا حصہ بننے کے لئے یکے بعد دیگرے ہاتھ ملایا تھا۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سابق وزیر اعظم واجپئی کے دور میں این ڈی اے کا حصہ بننے والی بی جے پی کی پہلی حلیف بن گئی۔ بعد میں، وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا۔

ماضی میں، دونوں، این سی اور پی ڈی پی نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے بی جے پی کے خلاف خوب بیان بازی کی اور بعد میں اسی جماعت کا ہاتھ تھام لیا۔ لیکن آج دونوں جماعتیں اپنا وجود بچانے کے لئے اسی بی جے پی کے خلاف ایک بار پھر متحد ہیں۔

بی جے پی نے مقامی جماعتوں کا استعمال کر کے خطے میں اپنی جگہ تو بنائی ہے تاہم کشمیر میں اب بھی بی جے پی کا ایک بھی رکن اسمبلی نہیں ہے لیکن 2014 اسمبلی انتخابات میں جموں میں بی جے پی نے 25 سیٹیں جیت لی۔

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور سیاسی قیادت کو جیل میں بند کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ساتھ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ سب کچھ بی جے پی کے گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں حکومت کی خواہش کے مطابق چل رہا تھا۔ لیکن سیاسی خلاء برقرار تھا۔

پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی جمود پیدا ہو تھا اور تصور کیا جاتا ہے کہ سنہا کو گورنر بنانے کے پیچھے اصل مقصد علاقے میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنا تھا۔

عمر اور ان کے والد فاروق عبداللہ کی جیل سے رہائی کے بعد اگرچہ وہ کبھی کبھار مرکزی حکومت کی جانب سے نافذ کئے جا رہے نئے قوانین کی مخالفت کرتے تھے لیکن زمینی سطح پر ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔

مرکزی حکومت، لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ اب بھی نو تشکیل شدہ مرکزی علاقہ (جموں و کشمیر) سے متعلق بڑی آئینی ترامیم کر رہی ہیں۔

سیاسی حلقوں اور عوام کی جانب سے اگرچہ بارہاں تیز رفتار انٹرنیٹ بحال کرنے کی درخواست کی گئی لیکن یہ کوشش بھی ثمر آور ثابت نہیں ہوئی۔

اپنی کھوئی ہوئی ساخت بچانے کے لئے مقامی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی۔ حالانکہ پہلے پہل سب خاموشی سے ہو رہا تھا لیکن بعد میں جب ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کا اعلان ہوا تو سیاسی گہما گہمی بھی شروع ہو گئی۔

وقتاً فوقتاً بی جے پی کے امت شاہ اور جتیندر سنگھ سے لیکر سمبت پاترا تک تمام بی جے پی قائدین نے اتحاد کے خلاف بیانات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

جب محبوبہ مفتی کو مہینوں جیل میں بند رکھنے کے بعد رہا کیا گیا تو انہوں نے جو بیان دیا اس سے سیاسی چیمہ گوئیاں شروع ہو گئی۔ محبوبہ نے کہا کہ جب تک آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کیا جاتا، وہ انتخابات نہیں لڑیں گی اور کوئی دوسرا جھنڈا نہیں لہرائے گیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد بی جے پی نے جموں و کشمیر میں زمینی سطح کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ علاقائی پارٹیاں انتخابات سے پرہیز کریں گی اور بی جے پی کو گاؤں اور بلاک سطح پر نمائندگی کرنے کے لئے معقول سیاسی جگہ ملے گی۔

بی جے پی کا منصوبہ تھا کہ جب بھی آئندہ اسمبلی انتخابات ہوں گے تو علاقائی پارٹیوں کے مقابلے میں زمینی سطح پر اس کی دعوے داری مستحکم ہو گی۔ بی جے پی نے جموں و کشمیر کے پورے علاقے میں نچلی سطح (بلاک لیول) پر اپنی نمائندگی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

بی جے پی کے منصوبے کے عین برعکس، عوامی اتحاد نے حیرت انگیز قدم اٹھایا اور بی جے پی کے خلاف انتخابات لڑنے کا اعلان کیا۔ بی جے پی نے اس کی توقع نہیں کی تھی۔ خواہ وہ مین اسٹریم ہو یا علیحدگی پسند یا افسران، گپکار اتحاد نے واقعی تمام جگہوں پر قبضہ کر لیا اور تب سے سرخیوں میں رہا۔

معروف علیحدگی پسند مسرت عالم بھٹ کی ممکنہ رہائی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔ کیا بھٹ کی رہائی سے بی جے پی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی؟ اس پر باریک بینی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں ہی اس کے نتائج سامنے آئے گے۔ تاہم مانا جاتا ہے کہ حکومت، بھٹ کی رہائی میں نرمی کر سکتی ہے، اور اس کا استعمال عوامی توجہ گپکار الائنس سے ہٹانے میں کر سکتی ہے۔

بی جے پی نے پہلے ہی اپنے بیانوں اور سیاسی تشہر میں کانگریس کو گپکار اعلامیہ کا حمایتی قرار دیا ہے جس کے بعد کانگریس دفاعی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ تاہم علاقائی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے کانگریس ہر قدم احتیاط کے ساتھ اُٹھا رہی ہیں۔

دیکھنے لائق ہوگا کہ بی جے پی جموں و کشمیر میں گپکار الائنس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو غیر مؤثر بنانے میں ائندہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔

جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی، عوامی جذبات اور بھارت نواز سیاست کے مابین لکیریں مدھم ہوگئی ہیں۔ تقریباً سبھی اہم سیاسی جماعتیں متحد ہو گئی ہیں، جس کا نام 'گپکار الائنس' رکھا گیا ہے، لیکن بی جے پی نے اسے 'گپکار گینگ' کا نام دیا ہے۔ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن میں شامل جماعتیں 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف متحد ہوئی ہیں۔

اس سے قبل، گپکار الائنس میں شامل سیاسی جماعتوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنانے یا این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کا حصہ بننے کے لئے یکے بعد دیگرے ہاتھ ملایا تھا۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سابق وزیر اعظم واجپئی کے دور میں این ڈی اے کا حصہ بننے والی بی جے پی کی پہلی حلیف بن گئی۔ بعد میں، وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا۔

ماضی میں، دونوں، این سی اور پی ڈی پی نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے بی جے پی کے خلاف خوب بیان بازی کی اور بعد میں اسی جماعت کا ہاتھ تھام لیا۔ لیکن آج دونوں جماعتیں اپنا وجود بچانے کے لئے اسی بی جے پی کے خلاف ایک بار پھر متحد ہیں۔

بی جے پی نے مقامی جماعتوں کا استعمال کر کے خطے میں اپنی جگہ تو بنائی ہے تاہم کشمیر میں اب بھی بی جے پی کا ایک بھی رکن اسمبلی نہیں ہے لیکن 2014 اسمبلی انتخابات میں جموں میں بی جے پی نے 25 سیٹیں جیت لی۔

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور سیاسی قیادت کو جیل میں بند کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ساتھ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ سب کچھ بی جے پی کے گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں حکومت کی خواہش کے مطابق چل رہا تھا۔ لیکن سیاسی خلاء برقرار تھا۔

پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی جمود پیدا ہو تھا اور تصور کیا جاتا ہے کہ سنہا کو گورنر بنانے کے پیچھے اصل مقصد علاقے میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنا تھا۔

عمر اور ان کے والد فاروق عبداللہ کی جیل سے رہائی کے بعد اگرچہ وہ کبھی کبھار مرکزی حکومت کی جانب سے نافذ کئے جا رہے نئے قوانین کی مخالفت کرتے تھے لیکن زمینی سطح پر ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔

مرکزی حکومت، لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ اب بھی نو تشکیل شدہ مرکزی علاقہ (جموں و کشمیر) سے متعلق بڑی آئینی ترامیم کر رہی ہیں۔

سیاسی حلقوں اور عوام کی جانب سے اگرچہ بارہاں تیز رفتار انٹرنیٹ بحال کرنے کی درخواست کی گئی لیکن یہ کوشش بھی ثمر آور ثابت نہیں ہوئی۔

اپنی کھوئی ہوئی ساخت بچانے کے لئے مقامی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی۔ حالانکہ پہلے پہل سب خاموشی سے ہو رہا تھا لیکن بعد میں جب ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کا اعلان ہوا تو سیاسی گہما گہمی بھی شروع ہو گئی۔

وقتاً فوقتاً بی جے پی کے امت شاہ اور جتیندر سنگھ سے لیکر سمبت پاترا تک تمام بی جے پی قائدین نے اتحاد کے خلاف بیانات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

جب محبوبہ مفتی کو مہینوں جیل میں بند رکھنے کے بعد رہا کیا گیا تو انہوں نے جو بیان دیا اس سے سیاسی چیمہ گوئیاں شروع ہو گئی۔ محبوبہ نے کہا کہ جب تک آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کیا جاتا، وہ انتخابات نہیں لڑیں گی اور کوئی دوسرا جھنڈا نہیں لہرائے گیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد بی جے پی نے جموں و کشمیر میں زمینی سطح کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ علاقائی پارٹیاں انتخابات سے پرہیز کریں گی اور بی جے پی کو گاؤں اور بلاک سطح پر نمائندگی کرنے کے لئے معقول سیاسی جگہ ملے گی۔

بی جے پی کا منصوبہ تھا کہ جب بھی آئندہ اسمبلی انتخابات ہوں گے تو علاقائی پارٹیوں کے مقابلے میں زمینی سطح پر اس کی دعوے داری مستحکم ہو گی۔ بی جے پی نے جموں و کشمیر کے پورے علاقے میں نچلی سطح (بلاک لیول) پر اپنی نمائندگی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

بی جے پی کے منصوبے کے عین برعکس، عوامی اتحاد نے حیرت انگیز قدم اٹھایا اور بی جے پی کے خلاف انتخابات لڑنے کا اعلان کیا۔ بی جے پی نے اس کی توقع نہیں کی تھی۔ خواہ وہ مین اسٹریم ہو یا علیحدگی پسند یا افسران، گپکار اتحاد نے واقعی تمام جگہوں پر قبضہ کر لیا اور تب سے سرخیوں میں رہا۔

معروف علیحدگی پسند مسرت عالم بھٹ کی ممکنہ رہائی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔ کیا بھٹ کی رہائی سے بی جے پی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی؟ اس پر باریک بینی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں ہی اس کے نتائج سامنے آئے گے۔ تاہم مانا جاتا ہے کہ حکومت، بھٹ کی رہائی میں نرمی کر سکتی ہے، اور اس کا استعمال عوامی توجہ گپکار الائنس سے ہٹانے میں کر سکتی ہے۔

بی جے پی نے پہلے ہی اپنے بیانوں اور سیاسی تشہر میں کانگریس کو گپکار اعلامیہ کا حمایتی قرار دیا ہے جس کے بعد کانگریس دفاعی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ تاہم علاقائی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے کانگریس ہر قدم احتیاط کے ساتھ اُٹھا رہی ہیں۔

دیکھنے لائق ہوگا کہ بی جے پی جموں و کشمیر میں گپکار الائنس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو غیر مؤثر بنانے میں ائندہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.