ETV Bharat / state

پلوامہ کو آنند آف کشمیر کیوں کہا جاتا ہے؟

گجرات میں آنند کے نام سے ایک ضلع ہے، جس کی پورے بھارت میں اپنی ایک الگ پہچان ہے، آنند کو ملک بھر میں مِلک سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے

آنند آف کشمیر
آنند آف کشمیر
author img

By

Published : Oct 23, 2020, 9:05 PM IST

Updated : Oct 24, 2020, 3:34 PM IST

جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کو پوری وادی میں آنند آف کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وادی بھر میں پلوامہ ہی ایسا واحد ضلع ہے جہاں دودھ کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے ضلع کو آنند آف کشمیر کا لقب دیا گیا ہے۔

دودھ کی پیداوار کا آنند سے آخر کیا رشتہ ہے؟

ریاست گجرات میں آنند کے نام سے ایک ضلع ہے، جس کی پورے بھارت میں اپنی ایک الگ پہچان ہے، آنند کو ملک بھر میں مِلک سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ ملک میں سب سے زیادہ دودھ کی پیداوار یہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کو آنند آف کشمیر کہا جاتا ہے۔

پلوامہ کو آنند آف کشمیر کیوں کہا جاتا ہے؟

پلوامہ سے ہر روز ساڑھے آٹھ لاکھ لیٹر دودھ بانہال سے لے کر کپواڑہ اور دیگر مختلف اضلاع میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

محتلف اضلاع میں دودھ پہنچانے سے پہلے اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ضلع کے ہر گاؤں میں تقریباً ایک سرکاری تسلیم شدہ سوسائٹی موجود ہے، جہاں پر کسان اپنا دودھ جمع کر کے مختلف فیکٹریوں میں بھیجتے ہیں۔

ان سوسائٹیز میں تعینات عہدیداران اعلیٰ تکنیک سے دودھ کی جانچ کرتے ہیں اور دودھ میں فَیٹ کے حساب سے کسانوں کو دودھ کی قیمت ادا کی جاتی ہے، مثال کے طور پر 25 روپے میں بکنے والا ایک لیٹڑ دودھ 35 سے 40 روپے تک جاتا ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے اور اسی طرح لوگوں میں دودھ کی پیداوار کو بڑھانے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

ضلع میں نجی سطح پر مویشی پروری کا رجحان کم ہوگیا ہے، ایک وقت تھا جب پلوامہ میں مویشیوں کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار تھی جو اب گھٹ کر 98 ہزار پر آگئی ہے۔ لیکن دودھ کی پیداوار پہلے سے بڑھی ہے۔

پلوامہ میں دودھ کی پیداوار سے سالانہ 300 کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔ ضلع میں موجود تقریباً پندرہ یونٹس لوگوں سے دودھ جمع کرتے ہیں اور پھر اسے وادی کے مختلف علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے، ان پلانٹس سے ہزاروں نوجوانوں کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی محمکہ اینیمل ہسبنڈری نے دودھ کی پیدوار میں اضافہ کے لئے بے روزگار نوجوانوں کے لئے ڈیئری فارم جیسی اسکیم کے ساتھ کئی اور اسکیمیں منظر عام پر لائی ہیں۔ جن کے تحت نوجوانوں کو 50 فیصد سبسیڈی دی جارہی ہے۔

ضلع میں موجود یونٹ ہولڈرس میں کام کر رہے نوجوانوں کا کہنا ہے 'جیدید تکنیک کی وجہ سے کسانوں کو کافی فائدہ مل رہا ہے، جہاں کسانوں کو پہلے دس سے بیس روپے فی لیٹر پیسے ملتے تھے تاہم نئی تکنیک کی وجہ سے کسانوں کو اپنی دودھ کی پیداوار کی معقول قیمت مل رہی ہے، ہم پوری وادی میں دودھ سپلائی کرتے ہیں اور اس کاروبار سے ہزاروں لوگ جڑے ہوئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیے
کہاں بنتی ہے آپکی پینسل؟

اس سلسلے میں محمکہ اینیمل ہسبینڈری ڈاکٹر عبدل رشید وانی نے کہا 'محکمہ نے ڈیئری فارم کو مزید فروغ دینے کے لیے مختلف اسکیمز لانچ کی ہیں، جس کے سبب بے روزگار نوجوان کو کافی مدد ملے گی'۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ نے ان بے روزگار نوجوانوں کے لیے بہت ساری اسکیموں کا آغاز کیا ہے اور ان اسکیمز میں 50 فیصد سبسیڈی بھی دی جارہی ہے۔

جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کو پوری وادی میں آنند آف کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وادی بھر میں پلوامہ ہی ایسا واحد ضلع ہے جہاں دودھ کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے ضلع کو آنند آف کشمیر کا لقب دیا گیا ہے۔

دودھ کی پیداوار کا آنند سے آخر کیا رشتہ ہے؟

ریاست گجرات میں آنند کے نام سے ایک ضلع ہے، جس کی پورے بھارت میں اپنی ایک الگ پہچان ہے، آنند کو ملک بھر میں مِلک سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ ملک میں سب سے زیادہ دودھ کی پیداوار یہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کو آنند آف کشمیر کہا جاتا ہے۔

پلوامہ کو آنند آف کشمیر کیوں کہا جاتا ہے؟

پلوامہ سے ہر روز ساڑھے آٹھ لاکھ لیٹر دودھ بانہال سے لے کر کپواڑہ اور دیگر مختلف اضلاع میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

محتلف اضلاع میں دودھ پہنچانے سے پہلے اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ضلع کے ہر گاؤں میں تقریباً ایک سرکاری تسلیم شدہ سوسائٹی موجود ہے، جہاں پر کسان اپنا دودھ جمع کر کے مختلف فیکٹریوں میں بھیجتے ہیں۔

ان سوسائٹیز میں تعینات عہدیداران اعلیٰ تکنیک سے دودھ کی جانچ کرتے ہیں اور دودھ میں فَیٹ کے حساب سے کسانوں کو دودھ کی قیمت ادا کی جاتی ہے، مثال کے طور پر 25 روپے میں بکنے والا ایک لیٹڑ دودھ 35 سے 40 روپے تک جاتا ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے اور اسی طرح لوگوں میں دودھ کی پیداوار کو بڑھانے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

ضلع میں نجی سطح پر مویشی پروری کا رجحان کم ہوگیا ہے، ایک وقت تھا جب پلوامہ میں مویشیوں کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار تھی جو اب گھٹ کر 98 ہزار پر آگئی ہے۔ لیکن دودھ کی پیداوار پہلے سے بڑھی ہے۔

پلوامہ میں دودھ کی پیداوار سے سالانہ 300 کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔ ضلع میں موجود تقریباً پندرہ یونٹس لوگوں سے دودھ جمع کرتے ہیں اور پھر اسے وادی کے مختلف علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے، ان پلانٹس سے ہزاروں نوجوانوں کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی محمکہ اینیمل ہسبنڈری نے دودھ کی پیدوار میں اضافہ کے لئے بے روزگار نوجوانوں کے لئے ڈیئری فارم جیسی اسکیم کے ساتھ کئی اور اسکیمیں منظر عام پر لائی ہیں۔ جن کے تحت نوجوانوں کو 50 فیصد سبسیڈی دی جارہی ہے۔

ضلع میں موجود یونٹ ہولڈرس میں کام کر رہے نوجوانوں کا کہنا ہے 'جیدید تکنیک کی وجہ سے کسانوں کو کافی فائدہ مل رہا ہے، جہاں کسانوں کو پہلے دس سے بیس روپے فی لیٹر پیسے ملتے تھے تاہم نئی تکنیک کی وجہ سے کسانوں کو اپنی دودھ کی پیداوار کی معقول قیمت مل رہی ہے، ہم پوری وادی میں دودھ سپلائی کرتے ہیں اور اس کاروبار سے ہزاروں لوگ جڑے ہوئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیے
کہاں بنتی ہے آپکی پینسل؟

اس سلسلے میں محمکہ اینیمل ہسبینڈری ڈاکٹر عبدل رشید وانی نے کہا 'محکمہ نے ڈیئری فارم کو مزید فروغ دینے کے لیے مختلف اسکیمز لانچ کی ہیں، جس کے سبب بے روزگار نوجوان کو کافی مدد ملے گی'۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ نے ان بے روزگار نوجوانوں کے لیے بہت ساری اسکیموں کا آغاز کیا ہے اور ان اسکیمز میں 50 فیصد سبسیڈی بھی دی جارہی ہے۔

Last Updated : Oct 24, 2020, 3:34 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.