ندا فاضلی کا اصل نام مقتدیٰ حسن فاضلی اور تخلص ندا تھا۔ دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اردو اور فارسی دیوان کے مجموعے بھرے پڑے تھے۔
ندا فاضلی کے والد بھی شعر و شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے اور ان کا اپنا ایک شعری مجموعہ بھی تھا جسے ندا فاضلی اکثر پڑھا کرتے تھے۔
ندا فاضلی نے گوالیار کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی اور اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لیے وہ سنہ 1964 میں ممبئی آگئے جہاں انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس درمیان انہوں نے 'دھرم يگ' اور 'بلٹز' جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کردیا۔ اپنے انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے ندا فاضلی تھوڑے ہی وقت میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس دوران اردو ادب کے کچھ ترقی پسند مصنفین اور شعراء ندا سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں ندا فاضلی کے اندر ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔
انہوں نے ندا فاضلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اور انہیں مشاعروں میں آنے کی دعوت دی۔
اُن دنوں اردو ادب کی تحریروں کی ایک حد مقرر تھی۔ آہستہ آہستہ ندا فاضلی نے اردو ادب کے حدود کو توڑتے ہوئے اپنی تحریر کا ایک الگ انداز بنایا۔
ندا فاضلی مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔ 70 کی دہائی میں ممبئی میں اپنے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر انہوں نے فلموں میں گیت لکھنا شروع کردیا لیکن فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور جدوجہد جاری رکھی۔
تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کے بعد ندا فاضلی 1980 میں ریلیز ہونے والی فلم 'آپ تو ایسے نہ تھے' میں لکھے گئے اپنے نغمے 'تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے' کی کامیابی کے بعد بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
ندا فاضلی انسان دوست شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ سماج کی جانب سے عائد پابندیوں، خاص طور پر مذہبی قید و بند پر تنقید کرتے ہیں۔
- ندا فاضلی کی مشہور غزل درج ذیل ہے۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- ندا فاضلی کے مشہور اشعار:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- اس جیسے موضوع پر ان کا ایک قطعہ بھی ہے۔
گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں
دنیا کعبہ و سومنات جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا فاضلی نے نظموں کے علاوہ دوہے، غزلیں بھی کہی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ 'لفظوں کا پل' انہ 1969 کے آس پاس شائع ہوا۔
اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ 'کھویا ہوا سا کچھ'، 'دیواروں کے باہر'، 'دیواروں کے بیچ'(خودنوشت)، 'دنیا مرے آگے'، 'شہر میں گاؤں'، 'شہر میرے ساتھ چل تو'، 'مورناچ'(مجموعہ کلام) 'ملاقاتیں'(خاکے)۔
ندا فاضلی کو ان کی کتابوں پر کئی ایوارڈ و انعامات سے نوازا گیا تھا جبکہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ان کے نام درج ہے۔
- اخیر میں ان کے کچھ مشہور اشعار درج ذیل ہیں۔
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہاکر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے