صاحبہ ارشاد بجبہاڑہ کے دوپتیار علاقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جہاں بچے اس عمر میں کھیل کود اور دیگر کاموں میں مصروف عمل ہوتے ہیں وہیں صاحبہ اپنے فن کو نکھارنے میں لگی رہتی ہیں۔ وہ اپنے مصوری کے شوق کو پورا کرنے کے لئے کافی محنت و مشقت کرتی ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی کوششوں سے اندازہ لگتا ہے کہ وہ آگے چل کر ایک بڑی فنکارہ بنیں گی۔ صاحبہ ارشاد اس وقت بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں، صاحبہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں کیوں کہ انہیں سماجی کاموں میں دلچسپی ہے۔
مصوری کے ساتھ ساتھ صاحبہ نے انگریزی میں کئی نظمیں بھی لکھی ہیں جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ صاحبہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں زیادہ تر اسکولی بچوں نے اپنا قیمتی وقت اسمارٹ فون پر صرف کیا، تاہم انہوں نے اسی وقت کو غنیمت سمجھ کر اپنے شوق کو پورا کیا۔
صاحبہ کو اگرچہ پہلے پہل اپنے فن کو آگے لے جانے کے لیے گھر والوں کا تعاون نہیں ملا تاہم مصوری کا شوق دیکھ کر ان کے والدین نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔ آج والدین کے ساتھ ان کے دوست بھی ان کے کام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کے اے ایس میں پہلا مقام حاصل کرنے والی خاتون
صاحبہ ارشاد کے والد کا کہنا ہے کہ ایسی ہنرمند طالبہ کو موزوں پلیٹ فارم اور مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ صاحبہ اور ان کی طرح کئی طلبا و طالبات میں ہنر کی کمی نہیں۔ ایسے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک موقع کی تلاش ہوتی ہے اور یہ موقع انہیں فراہم کیا جانا چاہیے۔