قدرت کے انمول حُسن کا مرکز کہلانے والی سرسبز و شاداب وادی کشمیر جس کی خوبصورتی لطف اندوز ہونے والوں کو جنت میں پہنچنے کا احساس دلاتی ہے۔ گلمرگ، پہلگام، ڈل جھیل جیسے خوبصورت مقامات کا نام سنتے ہی آپ کے ذہن میں کشمیر کا خیال آتا ہو گا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہاں حسن اور فطرت سے مالا مال ایک ایسی جگہ بھی موجود ہے، جسے دی ویلی آف ڈیتھ، یعنی موت کی وادی کہا جاتا ہے۔
ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً 72 کلو میٹر کی دوری پر سطح سمندر سے 12 ہزار 125 فٹ کی بلندی پر واقع مرگن ٹاپ یا مرگن ویلی قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پُر خطر ہونے کے باوجود یہ وادی اپنے پوشیدہ فطری حُسن سے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔
دراصل مرگن وادی پتھریلے پہاڑوں کے درمیان موجود ہے جو پیڑ پودوں سے بالکل مُبرا ہے، اس وادی میں ایک دلدل بھی موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ اچانک تیز آندھی کے ساتھ بارشوں کے دوران پہاڑیوں سے پتھر گرنا شروع ہو جاتے ہیں جس دوران یہاں پر موجود انسان کو سر چھپانے کے لئے جگہ بھی نہیں ملتی۔ اس طرح کے حالات کے دوران ابھی تک سینکڑوں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ خاص کر خانہ بدوش گجر بکروال قبیلے کو اس دشوار گزار مقام سے گزرنے کے دوران حادثات کا سامنا ہے۔
وادی مرگن ضلع کشتواڑ اور اننت ناگ کے درمیان موجود ہے، اس سے گزرنے والا راستہ، مڑوا واڈون کے علاقہ کو اننت سے جوڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وادی کشمیر کے ابھرتے فنکار ایم جے ناصر
یہ راستہ شدید برفباری کی وجہ سے سال میں صرف چھ ماہ کھلا رہتا ہے۔ قدرتی حسن کے متوالے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اونچی پہاڑیوں کا دشوار گزار راستہ عبور کرتے ہیں اور دنیا کی نظروں سے اوجھل مرگن ویلی کی خوبصورتی ان پر سحر طاری کر دیتی ہے۔
مرگن وادی کے اوپری حصہ میں ژہر ناگ نامی ایک جھیل بھی موجود ہے جو مذکورہ وادی کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگاتی ہے۔
انتہائی بلندی پر ہونے کے سبب موسم گرما میں بھی مرگن وادی میں درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر اچانک تیز آندھی، بارشیں یا بعض اوقات اوسط درجہ کی برف باری ہو جاتی ہے جس کے سبب یہاں پھنسنے والے شخص کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
لیاقت خان نامی ناؤکن کے مقام پر جہاں سے، مرگن ویلی، تقریباً پندرہ کلو میٹر دوری پر واقع ہے، بیس برسوں سے ایک دکان چلا رہے ہیں ان کا کہنا ہے 'میں نے اپنی زندگی میں کئی بار مرگن ٹاپ پر یا وہاں جانے کے دوران حادثے ہوتے دیکھے ہیں جن میں متعدد افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے'۔
لیاقت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھاری برف باری کے دوران پھنسنے والے کئی افراد کی جان بھی بچائی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
گرم ملبوسات اور کوئلہ بنانے کی تیاریاں شروع
وہیں اس جگہ تک پہنچنے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے کیا کچھ انتظامات کیے جا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پی ایم جی ایس وائی منصوبے پر کام کر رہے جونیئر انجینیئر ارشد سلام نے کہا'ایک منصوبے کے تحت مرگن وادی سے جانے والی دشوار گزار سڑک پر شدو مد سے کام جاری ہے۔ وہیں مرگن وادی میں سرکاری ہٹس و بیت الخلاء کا تعمیراتی کام بھی چل رہا ہے تاکہ اس خوبصورت مقام کو سیاحت کے لئے آسان بنایا جائے'۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وادی مرگن تک پہنچنے کے لیے تعمیراتی کام کب مکمل ہو گا اور کب سیاح بہ آسانی یہاں کا رخ اختیار کریں گے۔