ETV Bharat / city

کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کے ساڑھے تین ماہ مکمل

وادی کشمیر میں اتوار کے روز غیر یقینی صورتحال کے ساڑھے تین ماہ مکمل ہونے کے بیچ معمولات زندگی تیزی کے ساتھ بحال ہوتے ہوئے نظر آئے۔ تاہم تمام تر انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پری پیڈ موبائیل خدمات برابر معطل ہیں اور نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر بھی پابندی ہنوز جاری ہے۔

author img

By

Published : Nov 17, 2019, 5:25 PM IST

غیر یقینی صورتحال

وادی کی سڑکوں پر اب چھوٹی مسافر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ کچھ بسیں اور منی بسیں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں جبکہ سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایس آر ٹی سی) کی بسیں جن کی تعداد محض تین سے چار درجن ہوگی، گزشتہ دو ماہ سے سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔

سری نگر میں دکانیں اور تجارتی مراکز جو دو ہفتے پہلے صبح کے گیارہ بجے تک ہی کھلے رہتے تھے اب دوپہر ایک یا دو بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز جو شام کے پانچ بجے کے بعد ہی کھلتے تھے اب پانچ سے سات گھنٹوں تک کھلے رہتے ہیں۔

ادھر سنڈے مارکیٹ جو گزشتہ قریب ڈیڑھ ماہ سے معمول کے برعکس ہر روز کھلا رہتا ہے، میں اتوار کے روز گاہکوں کا بھاری رش دیکھا گیا جو گرم ملبوسات کی فروخت میں مصروف تھے۔ ٹی آر سی سے جہانگیر چوک تک بڑی تعداد میں چھاپڑی فروش سڑک کے دونوں کناروں پر اپنا سامان فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔

جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ضلع کے مقدم محلہ ترال میں نامعلوم افراد نے گزشتہ رات ایک ٹرک کو نذر آتش کردیا۔ یہ ٹرک ایک مقامی شہری کا تھا جنہوں نے اسے سڑک کے کنارے کھڑا کر رکھا تھا۔

واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگرچہ یہاں ہڑتال کی کال علاحدگی پسند لیڈراں دیا کرتے تھے لیکن وہ پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں اور ان کی طرف سے کوئی اخباری، زبانی یا ٹیلی فونک بیان سامنے نہیں آتا ہے علاوہ ازیں وادی کی مین اسٹریم جماعتوں کے بیشتر چھوٹے بڑے لیڈران بھی پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں جن میں تین سابق وزارئے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، اُن کے فرزند عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی خاص طور پر قابل ذکر ہیں تاہم انتظامیہ نے مین اسٹریم لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

ادھر اگرچہ وادی میں ایک طرف معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں تو دوسری طرف انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل خدمات پر پابندی بدستور جاری ہے۔ افواہیں گرم ہیں کہ انتظامیہ وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل فون خدمات بہت جلد بحال کرے گی۔

مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کے باعث صحافیوں، طباء اور تاجروں کے مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کے باعث انہیں اپنے پیشہ ورانہ کام کی انجام دہی کے لئے جو مشکلات درپیش ہیں، ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر میں روز جانا پڑ رہا ہے جو موجودہ حالات اور موسم کے چلتے انتہائی کھٹن کام ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی میں اتوار کے روز بھی اگرچہ معمولات زندگی پٹری کی طرف لوٹتے ہوئے نظر آئے تاہم بازار محدود وقت تک ہی کھلے رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی حزوی نقل وحمل دکھائی دی تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور آمد ورفت سے کئی مقامات پر ٹریفک جام بھی ہوا۔

عینی شاہدین کے مطابق اتوار کے روز بھی سری نگر کے جملہ علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں صبح کے وقت تمام بازار کھل گئے تاہم بعض علاقوں میں ایک بجے تک بازار کھلے رہے جبکہ بعض میں بارہ بجنے سے قبل ہی دکانداروں نے دکان بند کئے، سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل کا اس قدر رش تھا کہ راہگیروں کے لئے سڑک پار کرنا ناممکن بن گیا تھا جبکہ کئی روٹس پر سومو گاڑیوں کے ساتھ ساتھ اکا دکا بسیں و منی بسیں بھی چل رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہر سری نگر کی جملہ سڑکوں بالخصوص سنڈے مارکیٹ میں چھاپڑی فروش صبح سے شام تک ڈیرا زن تھے اور جن کے، خاص طور پر گرم ملبوسات اور جوتے بیچنے والوں کے پاس لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔

وادی کے دیگر شمال وجنوب کے ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات میں بھی اتوار کے روز بھی معمولات زندگی کو بحالی پر گامزن ہوتے ہوئے دیکھا گیا بعض علاقوں میں بازار دوپہر سے ہی کھل گئے جبکہ بعض علاقوں میں سہ پہر کے بعد کھل کر شام دیر گئے تک کھلے رہے سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل جاری رہی تاہم بڑی بسیں ابھی بھی سڑکوں سے غائب ہی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ وادی کے بیشتر مین اسٹریم لیڈران بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مسلسل زیر حراست ہیں تاہم سردی کے پیش نظر انتظامیہ نے محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی سے مولانا آزاد روڑ سے متصل سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا ہے تاہم ڈاکٹر فاروق اور عمر عبداللہ فی الحال موجودہ جگہوں پر ہی بند ہیں۔ مزاحمتی لیڈاران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔

وادی کی سڑکوں پر اب چھوٹی مسافر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ کچھ بسیں اور منی بسیں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں جبکہ سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایس آر ٹی سی) کی بسیں جن کی تعداد محض تین سے چار درجن ہوگی، گزشتہ دو ماہ سے سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔

سری نگر میں دکانیں اور تجارتی مراکز جو دو ہفتے پہلے صبح کے گیارہ بجے تک ہی کھلے رہتے تھے اب دوپہر ایک یا دو بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز جو شام کے پانچ بجے کے بعد ہی کھلتے تھے اب پانچ سے سات گھنٹوں تک کھلے رہتے ہیں۔

ادھر سنڈے مارکیٹ جو گزشتہ قریب ڈیڑھ ماہ سے معمول کے برعکس ہر روز کھلا رہتا ہے، میں اتوار کے روز گاہکوں کا بھاری رش دیکھا گیا جو گرم ملبوسات کی فروخت میں مصروف تھے۔ ٹی آر سی سے جہانگیر چوک تک بڑی تعداد میں چھاپڑی فروش سڑک کے دونوں کناروں پر اپنا سامان فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔

جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ضلع کے مقدم محلہ ترال میں نامعلوم افراد نے گزشتہ رات ایک ٹرک کو نذر آتش کردیا۔ یہ ٹرک ایک مقامی شہری کا تھا جنہوں نے اسے سڑک کے کنارے کھڑا کر رکھا تھا۔

واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگرچہ یہاں ہڑتال کی کال علاحدگی پسند لیڈراں دیا کرتے تھے لیکن وہ پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں اور ان کی طرف سے کوئی اخباری، زبانی یا ٹیلی فونک بیان سامنے نہیں آتا ہے علاوہ ازیں وادی کی مین اسٹریم جماعتوں کے بیشتر چھوٹے بڑے لیڈران بھی پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں جن میں تین سابق وزارئے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، اُن کے فرزند عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی خاص طور پر قابل ذکر ہیں تاہم انتظامیہ نے مین اسٹریم لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

ادھر اگرچہ وادی میں ایک طرف معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں تو دوسری طرف انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل خدمات پر پابندی بدستور جاری ہے۔ افواہیں گرم ہیں کہ انتظامیہ وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل فون خدمات بہت جلد بحال کرے گی۔

مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کے باعث صحافیوں، طباء اور تاجروں کے مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کے باعث انہیں اپنے پیشہ ورانہ کام کی انجام دہی کے لئے جو مشکلات درپیش ہیں، ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر میں روز جانا پڑ رہا ہے جو موجودہ حالات اور موسم کے چلتے انتہائی کھٹن کام ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی میں اتوار کے روز بھی اگرچہ معمولات زندگی پٹری کی طرف لوٹتے ہوئے نظر آئے تاہم بازار محدود وقت تک ہی کھلے رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی حزوی نقل وحمل دکھائی دی تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور آمد ورفت سے کئی مقامات پر ٹریفک جام بھی ہوا۔

عینی شاہدین کے مطابق اتوار کے روز بھی سری نگر کے جملہ علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں صبح کے وقت تمام بازار کھل گئے تاہم بعض علاقوں میں ایک بجے تک بازار کھلے رہے جبکہ بعض میں بارہ بجنے سے قبل ہی دکانداروں نے دکان بند کئے، سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل کا اس قدر رش تھا کہ راہگیروں کے لئے سڑک پار کرنا ناممکن بن گیا تھا جبکہ کئی روٹس پر سومو گاڑیوں کے ساتھ ساتھ اکا دکا بسیں و منی بسیں بھی چل رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہر سری نگر کی جملہ سڑکوں بالخصوص سنڈے مارکیٹ میں چھاپڑی فروش صبح سے شام تک ڈیرا زن تھے اور جن کے، خاص طور پر گرم ملبوسات اور جوتے بیچنے والوں کے پاس لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔

وادی کے دیگر شمال وجنوب کے ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات میں بھی اتوار کے روز بھی معمولات زندگی کو بحالی پر گامزن ہوتے ہوئے دیکھا گیا بعض علاقوں میں بازار دوپہر سے ہی کھل گئے جبکہ بعض علاقوں میں سہ پہر کے بعد کھل کر شام دیر گئے تک کھلے رہے سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل جاری رہی تاہم بڑی بسیں ابھی بھی سڑکوں سے غائب ہی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ وادی کے بیشتر مین اسٹریم لیڈران بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مسلسل زیر حراست ہیں تاہم سردی کے پیش نظر انتظامیہ نے محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی سے مولانا آزاد روڑ سے متصل سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا ہے تاہم ڈاکٹر فاروق اور عمر عبداللہ فی الحال موجودہ جگہوں پر ہی بند ہیں۔ مزاحمتی لیڈاران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.