ETV Bharat / bharat

پریم چند کی ’رام چرچا‘ مہاتما گاندھی کو کیوں پسند تھی؟

author img

By

Published : Jul 30, 2020, 1:41 PM IST

ممتازادیب وافسانہ نگار منشی پریم چند نے ’رام چرچا‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی اور یہ کتاب بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بہت پسند تھی ۔

منشی پریم چند
منشی پریم چند

منشی پریم چند کی 140 ویں سالگرہ کے موقع پر پریم چند ادب کے ماہر مصنف ڈاکٹر کمل کشور گوینکا نے اس بات کا انکشاف کیا ۔

انہوں نے کہا کہ پریم چند نے 1928 میں اردو میں ’رام چرچا‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی جو بنیادی طور پر بچوں کے لئے تھی لیکن وہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بھی بہت پسند تھی ۔

ممتازادیب وافسانہ نگار منشی پریم چند
ممتازادیب وافسانہ نگار منشی پریم چند

اس دوران منشی پریم چند پر 1933 میں شائع ہونے والی پہلی کتاب ان کی 140 ویں سالگرہ کے موقع پر 70 سال بعد ایک مرتبہ پھر شائع ہو کر سامنے آئی ہے ۔

اس کے مصنف بہار سے تعلق رکھنے والے جناردن پرساد جھا ’دویج‘ تھے۔ یہ تنقید پر مبنی کتاب تھی۔

جس کا نام ’پریم چند کی اپنیاس کلا ‘ تھا اور یہ 1933 میں چھپرا کے سرسوتی مندر سے شائع ہوئی تھی۔

اس کی قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ تھی۔

یہ کتاب جب شائع ہوئی تھی تب تک پریم چند کا مشہور ناول ’ گودان ‘شائع نہیں ہوا تھا اور ’ کفن نامی کہانی شائع نہیں ہوئی تھی۔

ہندی ہندی مشہور مصنف بھارت بھاردواج نے دویج جی کی کتاب کی تدوین کی ۔

اس کتاب کے کردار میں مسٹر دویج نے پریم چند کی جن تخلیقات پر بات کی ہے ان میں ’’ رام چرچا‘‘ کا ذکر نہیں ہے لیکن ’راون‘ نامی ایک کتاب کا ذکر ضرور ہے لیکن ڈاکٹر گوینکا اس کو پروف کی غلطی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پرغبن نامی کتاب ہو گی۔

ڈاکٹر گوینکا کا کہنا ہے کہ 10 جولائی 1932 کو مہاتما گاندھی نے اپنی ڈائری میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی کتاب ’رام چرچا ‘ نامی کتاب پڑھنا شروع کی ہے۔

پھر 17 جولائی 1932 کو گاندھی جی نے ایک بار پھر ڈائری میں لکھا تھا کہ ’رام چرچا‘ ختم ہو گئی ہے اور مجھے پسند آ ئی۔

اس کے بعد مجھے ایک اور کتاب پڑھنی ہے۔

اس کے بعد 26 جولائی 1932 کو گاندھی جی نے ریحانہ طیب جی نامی خاتون کو ایک خط میں لکھا کہ اردو میں چھپی ہوئی ’رام چرچا‘ ایک بہت اچھی کتاب ہے اور اردو سمجھنا بہت آسان ہے۔

ڈاکٹر گوینکا کا کہنا ہے کہ ہندی دنیا میں ’رام چرچا‘ کی کوئی بحث نہیں ہوتی اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پریم چند نے ’رام چرچا‘ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔

مسٹر بھاردواج کہنا ہے کہ جناردن پرساد جھا ’دویج ‘ پریم چند کے زندہ رہتے ہی ان پر تنقید کی کتاب لکھی تھی۔ لیکن زیادہ تر ہندی مصنفوں کو اس کی جانکاری نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ رام ولاس شرما اور وجئے موہن سنگھ جیسے نقادوں کو بھی نہیں تھی ۔

دویج نے اس کتاب کے سلسلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ انہیں پریم چند کا ’نرملا‘ ناول نہیں ملا تھا لیکن وہ چاند میگزین میں مکمل شائع ہوا تھا اوروہ وہاں سے انہوں نے وہ پڑھا تھا ۔

دویج جی نے کتاب کے شائع ہونے کے بعد اس کی ایک کاپی پریم چند کو دی تھی اور اپنے ساتھ ایک تصویر بھی کھینچائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:بھارت میں کورونا کے ریکارڈ 52 ہزار نئے معاملے درج

پریم چند نے بھی ہنس میں اس کتاب کا ذکر کیا تھا۔ اس کتاب کی تصدیق گوینکا بھی کرتے ہیں۔

منشی پریم چند کی 140 ویں سالگرہ کے موقع پر پریم چند ادب کے ماہر مصنف ڈاکٹر کمل کشور گوینکا نے اس بات کا انکشاف کیا ۔

انہوں نے کہا کہ پریم چند نے 1928 میں اردو میں ’رام چرچا‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی جو بنیادی طور پر بچوں کے لئے تھی لیکن وہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بھی بہت پسند تھی ۔

ممتازادیب وافسانہ نگار منشی پریم چند
ممتازادیب وافسانہ نگار منشی پریم چند

اس دوران منشی پریم چند پر 1933 میں شائع ہونے والی پہلی کتاب ان کی 140 ویں سالگرہ کے موقع پر 70 سال بعد ایک مرتبہ پھر شائع ہو کر سامنے آئی ہے ۔

اس کے مصنف بہار سے تعلق رکھنے والے جناردن پرساد جھا ’دویج‘ تھے۔ یہ تنقید پر مبنی کتاب تھی۔

جس کا نام ’پریم چند کی اپنیاس کلا ‘ تھا اور یہ 1933 میں چھپرا کے سرسوتی مندر سے شائع ہوئی تھی۔

اس کی قیمت صرف ڈیڑھ روپیہ تھی۔

یہ کتاب جب شائع ہوئی تھی تب تک پریم چند کا مشہور ناول ’ گودان ‘شائع نہیں ہوا تھا اور ’ کفن نامی کہانی شائع نہیں ہوئی تھی۔

ہندی ہندی مشہور مصنف بھارت بھاردواج نے دویج جی کی کتاب کی تدوین کی ۔

اس کتاب کے کردار میں مسٹر دویج نے پریم چند کی جن تخلیقات پر بات کی ہے ان میں ’’ رام چرچا‘‘ کا ذکر نہیں ہے لیکن ’راون‘ نامی ایک کتاب کا ذکر ضرور ہے لیکن ڈاکٹر گوینکا اس کو پروف کی غلطی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پرغبن نامی کتاب ہو گی۔

ڈاکٹر گوینکا کا کہنا ہے کہ 10 جولائی 1932 کو مہاتما گاندھی نے اپنی ڈائری میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی کتاب ’رام چرچا ‘ نامی کتاب پڑھنا شروع کی ہے۔

پھر 17 جولائی 1932 کو گاندھی جی نے ایک بار پھر ڈائری میں لکھا تھا کہ ’رام چرچا‘ ختم ہو گئی ہے اور مجھے پسند آ ئی۔

اس کے بعد مجھے ایک اور کتاب پڑھنی ہے۔

اس کے بعد 26 جولائی 1932 کو گاندھی جی نے ریحانہ طیب جی نامی خاتون کو ایک خط میں لکھا کہ اردو میں چھپی ہوئی ’رام چرچا‘ ایک بہت اچھی کتاب ہے اور اردو سمجھنا بہت آسان ہے۔

ڈاکٹر گوینکا کا کہنا ہے کہ ہندی دنیا میں ’رام چرچا‘ کی کوئی بحث نہیں ہوتی اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پریم چند نے ’رام چرچا‘ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔

مسٹر بھاردواج کہنا ہے کہ جناردن پرساد جھا ’دویج ‘ پریم چند کے زندہ رہتے ہی ان پر تنقید کی کتاب لکھی تھی۔ لیکن زیادہ تر ہندی مصنفوں کو اس کی جانکاری نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ رام ولاس شرما اور وجئے موہن سنگھ جیسے نقادوں کو بھی نہیں تھی ۔

دویج نے اس کتاب کے سلسلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ انہیں پریم چند کا ’نرملا‘ ناول نہیں ملا تھا لیکن وہ چاند میگزین میں مکمل شائع ہوا تھا اوروہ وہاں سے انہوں نے وہ پڑھا تھا ۔

دویج جی نے کتاب کے شائع ہونے کے بعد اس کی ایک کاپی پریم چند کو دی تھی اور اپنے ساتھ ایک تصویر بھی کھینچائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:بھارت میں کورونا کے ریکارڈ 52 ہزار نئے معاملے درج

پریم چند نے بھی ہنس میں اس کتاب کا ذکر کیا تھا۔ اس کتاب کی تصدیق گوینکا بھی کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.