ETV Bharat / state

شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کی قبر کا کتبہ اکھاڑ دیا گیا - Kaifi Azmi Grave

Kaifi Azmi's tombstone ورسوا قبرستان کے منتظمین کی کارروائی پرممبئی کے ادبی و سماجی حلقوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کتبہ کو یادگار کے طور پر باقی رکھنے کا مطالبہ کیا۔

author img

By UNI (United News of India)

Published : Mar 21, 2024, 10:25 PM IST

Shabana Azmi's father Kaifi  Azmi's tombstone was torn down
شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کی قبر کا کتبہ اکھاڑ دیا گیا

ممبئی: معروف شاعر، نغمہ نگار، اور ترقی پسند تحریک کے ایک ستون کیفی اعظمی کی ممبئی میں واقع قبر پر نصب کتبہ کو اکھاڑ دیا گیا اور قبر کا نشان مٹا دیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی مشہور شاعر ونغمہ نگار مشہور اداکار شبانہ اعظمی کے والد اور مصنف و شاعر جاوید اختر کے خسر ہیں۔

واضح رہے کہ ممبئی کے شمال مغربی علاقہ اندھیری ورسوا میں واقع چار بنگله قبرستان 10 مئی 2002 ء کو انتقال کے بعد ان کی تدفین عمل میں آئی تھی اور اس قبرستان میں ان کے قبر پرکتبہ نصب تھا، جس پر ان کی غزل کا یہ شعر تحریر تھا،

خاروخس تو اٹھیں راستہ تو چلیں

میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے

لیکن قبرستان انتظامیہ کمیٹی نے بی ایم سی کے قبرستان میں حال میں مرحوم کیفی اعظمی کی قبر سے اس کتبہ کو اکھاڑ دیا ہے اور اب قبر پر کتبہ نہ ہونے سے اس کا علم نہیں ہوتا ہے کہ کیفی اعظمی کی قبر کہاں ہے۔

اس بارے میں قبرستان کے منتظمین کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتے ہیں۔ چند سال قبل جوہو قبرستان میں بھی واقع مشہور گلوکار محمد رفیع کی قبر پر سے بھی نصب کتبہ کو ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن محمد رفیع فین کلب اور اہل خانہ کے احتجاج کے بعد دوبارہ کتبہ نصب کر دیا گیا ہے۔

اب چار بنگلہ قبرستان میں شاعر کیفی اعظمی کی قبر سے کتبہ اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ممبئی کے ادبی و سماجی حلقوں میں اس پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔

معروف شاعر عبید اعظم اعظمی نے کہا کہ قبرستان انتظامیہ نے ویسے تو دوسرے کتبوں کو بھی ہٹا دیا ہے، لیکن کیفی اعظمی کے کتبہ کو یادگار کے طور پر رکھا جاسکتا تھا، کیونکہ وہ ایک نمایاں شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہمیشہ حق و انصاف کی آواز بلند کی۔ اور مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔

واضح رہے کہ کیفی اعظمی کا تعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا لیکن بہرائچ شہر سے بھی گہرا تعلق تھا۔ کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔

غالباً 1943ء میں کیفی اعظمی اپنے وطن اعظم گڑھ سے بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے اور یہاں انہیں قریب دس سال کی جد و جہد کے بعد انہیں ہندی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے۔ شرکت کے لیے 80 روپے بھی ملے۔ تاہم اس زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے۔

مگر پیشگی رقم 40 روپے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئے۔ کیفی نے منشاء سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔

کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت ، اندیشه، نر تک کال ، حوصلہ تقیسم ، مکان ، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔

ان کے مجموعات کلام آخرشب، آوارہ سجدے سرمایہ ہیں۔ کیفی اعظمی نے 1990 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران یہ کوشش کی کہ ان کے گاؤں سے ایک اینٹ بھی اجودھیا نہ جائے اور انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی ملی تھی۔

وہ کیمونزم کے حامی رہے۔ جوہو میں ان کے نام سے ایک باغیچہ منسوب کیا گیا ہے اور ایم پی کی حیثیت سے فنڈ شبانہ اعظمی نے دیا تھا۔(یو این آئی)

ممبئی: معروف شاعر، نغمہ نگار، اور ترقی پسند تحریک کے ایک ستون کیفی اعظمی کی ممبئی میں واقع قبر پر نصب کتبہ کو اکھاڑ دیا گیا اور قبر کا نشان مٹا دیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی مشہور شاعر ونغمہ نگار مشہور اداکار شبانہ اعظمی کے والد اور مصنف و شاعر جاوید اختر کے خسر ہیں۔

واضح رہے کہ ممبئی کے شمال مغربی علاقہ اندھیری ورسوا میں واقع چار بنگله قبرستان 10 مئی 2002 ء کو انتقال کے بعد ان کی تدفین عمل میں آئی تھی اور اس قبرستان میں ان کے قبر پرکتبہ نصب تھا، جس پر ان کی غزل کا یہ شعر تحریر تھا،

خاروخس تو اٹھیں راستہ تو چلیں

میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے

لیکن قبرستان انتظامیہ کمیٹی نے بی ایم سی کے قبرستان میں حال میں مرحوم کیفی اعظمی کی قبر سے اس کتبہ کو اکھاڑ دیا ہے اور اب قبر پر کتبہ نہ ہونے سے اس کا علم نہیں ہوتا ہے کہ کیفی اعظمی کی قبر کہاں ہے۔

اس بارے میں قبرستان کے منتظمین کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتے ہیں۔ چند سال قبل جوہو قبرستان میں بھی واقع مشہور گلوکار محمد رفیع کی قبر پر سے بھی نصب کتبہ کو ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن محمد رفیع فین کلب اور اہل خانہ کے احتجاج کے بعد دوبارہ کتبہ نصب کر دیا گیا ہے۔

اب چار بنگلہ قبرستان میں شاعر کیفی اعظمی کی قبر سے کتبہ اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ممبئی کے ادبی و سماجی حلقوں میں اس پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔

معروف شاعر عبید اعظم اعظمی نے کہا کہ قبرستان انتظامیہ نے ویسے تو دوسرے کتبوں کو بھی ہٹا دیا ہے، لیکن کیفی اعظمی کے کتبہ کو یادگار کے طور پر رکھا جاسکتا تھا، کیونکہ وہ ایک نمایاں شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہمیشہ حق و انصاف کی آواز بلند کی۔ اور مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔

واضح رہے کہ کیفی اعظمی کا تعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا لیکن بہرائچ شہر سے بھی گہرا تعلق تھا۔ کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔

غالباً 1943ء میں کیفی اعظمی اپنے وطن اعظم گڑھ سے بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے اور یہاں انہیں قریب دس سال کی جد و جہد کے بعد انہیں ہندی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے۔ شرکت کے لیے 80 روپے بھی ملے۔ تاہم اس زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے۔

مگر پیشگی رقم 40 روپے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئے۔ کیفی نے منشاء سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔

کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت ، اندیشه، نر تک کال ، حوصلہ تقیسم ، مکان ، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔

ان کے مجموعات کلام آخرشب، آوارہ سجدے سرمایہ ہیں۔ کیفی اعظمی نے 1990 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران یہ کوشش کی کہ ان کے گاؤں سے ایک اینٹ بھی اجودھیا نہ جائے اور انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی ملی تھی۔

وہ کیمونزم کے حامی رہے۔ جوہو میں ان کے نام سے ایک باغیچہ منسوب کیا گیا ہے اور ایم پی کی حیثیت سے فنڈ شبانہ اعظمی نے دیا تھا۔(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.