ETV Bharat / state

ممبئی: ماہ رمضان میں کھاؤ گلی کی گہما گہمی

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 15, 2024, 4:23 PM IST

رمضان میں جنوبی ممبئی کی مینارہ مسجد بھینڈی بازار میں کافی بھیڑ ہوتا ہے، علاقائی لوگ اس بھیڑ سے بچنے کے لئے شاید ان بازاروں کا رخ کم ہی کرتے ہیں، لیکن دور دراز کے لوگ ان بازاروں اور یہاں ملنے والی اشیاء کے لئے بڑے بے چین ہوتے ہیں، کیونکہ ماہ مقدس کے علاوہ پھر ان کھانے کی اشیاء کا اگلے سال تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔

ممبئی: ماہ رمضان میں کھاؤ گلی کی گہما گہمی
ممبئی: ماہ رمضان میں کھاؤ گلی کی گہما گہمی
ممبئی: ماہ رمضان میں کھاؤ گلی کی گہما گہمی

ممبئی: رمضان کے ماہِ مقدس میں جنوبی ممبئی کی بازاروں میں کافی ہجوم ہوتا ہے، ان بازاروں میں ایک کشش ہے جو کھانے کے شائقین کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ علاقائی لوگ اس بھیڑ سے بچنے کے لئے شاید ان بازاروں کا رخ کم ہی کرتے ہوں گے، لیکن دور دراز کے لوگ ان بازاروں اور یہاں ملنے والی اشیاء کے لئے بڑے بےچین ہوتے ہیں، کیونکہ ماہ مقدس کے علاوہ پھر یہ کھانے کی اشیاء کے لئے اگلے برس کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔

اگر آپ جنوبی ممبئی کی مینارہ مسجد بھینڈی بازار کی ان گلیوں میں تفریح اور یہاں کے انواع اقسام کھانوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو یہ پتہ ہونا بہت ضروری ہے کہ یہاں ماہ مقدس میں اسپیشل اشیاء کون کون سی ہیں۔

بھینڈی بازار میں سلیمان عثمان مٹھائی والے کی دکان بازار کے داخلی گیٹ پر ہی ہے، یہاں کا مالپوہ کھانے کے لیے لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے، ساتھ ہی پاس میں برہان پور ماوہ جلیبی کے اطراف میں کئی دکانیں ہیں لیکن خاص طور پر جلیبی ہی کھانی ہے تو جے جے جلیبی والا کی دوکان پر ضرور جائیں۔

شالیمار ہوٹل کے مالک عمیر شہاب الدین شیخ کہتے ہیں کہ رمضان میں سحری کے وقت لوگ قیمہ اور نہاری لینے دور دراز سے آتے ہیں حالانکہ عام دنوں میں صبح کا جو ناشتہ رہتا ہے اس میں یہ دو کھانے بڑھا دیے جاتے ہیں اور کھانے کے شائقین کا مطالبہ زیادہ تر قیمہ اور نہاری کے لیے ہی ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ افطار میں شالیمار فالودہ جس میں آئسکریم بنانے کا قدیم طریقہ ہے، جو برف کے سانچے میں ڈال کر کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تیار کی جاتی ہے۔ افطار میں چکن تنگڑی کباب، چکن اٹالین، حیدرآبادی حلیم، ترکش کنافه ، مالپوہ کی فرمائش سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

مینارہ مسجد کی کھاؤ گلی میں کھانے کی کئی ہوٹلیں ہیں، ان میں افطار سے لیکر سحر تک بھیڑ رہتی ہے۔ ماشاء اللہ ہوٹل کے ملک عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ہوٹل میں عام دنوں کی طرح کھانے کے لیے کئی مغلائی اور چائینز کے لئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں، لیکن اُنہوں نے ماہ مقدس میں سب سے زیادہ کھانے کے شائقین کو چکن برا کریم کھاتے دیکھا، چکن برا کریم کا یہ فارمولہ سیکریٹ ہے۔

علاقہ مسلمانوں کا ہے لیکن یہاں گجراتی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور متوسط طبقے کے لیے یہ ایک ماہ کی بازاریں کسی نعمت سے کم نہیں۔ انہی بازاروں میں دو حجابی بہنیں ہیں، جو یہاں بھانڈولی (پین کیک) بنا کر فروخت کرتی ہیں، یہ ایک گجراتی ڈیش ہے۔

یہ گجراتی پکوان ہے لیکن ممبئی میں اسے افطار کے وقت لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ شیر بانو کہتی ہیں کہ ان کی والدہ زبیدہ بانو اسی مقام پر آج سے 35 برس قبل بھانڈولی بنانے کی چھوٹی سی دوکان کی شروعات کی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بن گئی۔ جو ماہ مقدس کے ایک ماہ کے دوران اپنے گھر کے اخراجات اور دوسسری ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔

شیر بانو کہتی ہیں کی دور طفل سے ہی اسی علاقے کے بستی محلہ میں رہتی ہیں۔ والدہ کو اسی مقام پر گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھانڈولی بنا کر روزے داروں کو فروخت کرتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت بھی والدہ کے اس کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد ہم نے اس کی شروعات کی اور روزے داروں کے مطالبے کو پورا کیا۔

شیر بانو کی شادی ہو چکی ہے ان کے دو بچے ہیں۔ شوہر اے سی مکینک ہیں۔ شیر بانو کہتی ہیں کہ کوئی بھی کام چھوٹا نہیں ہوتا، ہم نے روزی روٹی کے لئے والدہ کو محنت کرتے دیکھا، ہم نے اپنی والدہ سے ہی سیکھا۔ آج والدہ نہیں ہیں لیکن یہ گلی اور یہ بازار اور یہاں کے روزے دار خریدار ان کے لئے کوئی نئے نہیں ہیں۔

بھنڈی بازار میں مینارہ مسجد کی ان گلیوں میں بیشتر پکوان ایک ماہ کے لئے یہاں بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 11 ماہ تک لوگ انتظار کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جو کاروبار کی نوعیت سے رمضان کے ساتھ پورے برس تک یہ کاوربار کرتے ہیں۔ عبدالقادر اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں طویل مدت سے ساندال بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ عبدالقادر کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے ان کا اہل خانہ گزشتہ ٢٠٠ برسوں سے وابستہ ہے، یہ ان کی آٹھویں نسل ہے۔

عبدالقادر کہتے ہیں کہ آج سے ٢٠٠ برس قبل ان کے آباو اجداد نے ماہ مقدس رمضان المبارک کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے اس کاروبار کی بنیاد ڈالی تھی۔ آغاز بہتر ہونے کے سبب عوام اور شائقین کے اسرار سے اسے روز مرہ کی طرح سال بھر فروخت کرنے لگے اور یہ کاروبار گزشتہ 200 برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ کورونا کے سبب دو برس بند ہونے کے باوجود بازار میں اس کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

63 برس کی فاطمہ ہارون ہالانی جو ممبئی کی مینارہ مسجد کی گلیوں میں طویل مدت سے ساندال بنا کر فروخت کرتی ہیں۔ ان کے شوہر کا 16 برس قبل انتقال ہو گیا ہے جس کے بعد اب ان کے اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ چکی ہے۔ اس لئے انہوں نے اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں رمضان میں اسے فروخت کرتی ہیں۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ گزشتہ ١٠٠ برس سے یہ کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے بجھجھک مینارہ مسجد کی ان گلیوں میں اسے فروخت کرنا شروع کیا۔ اس ایک ماہ کی ہونے والی آمدنی سے وہ برس کے 11 ماہ کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔

سلیم پنجابی گزشتہ 60 برسوں سے دہی وڑے فروخت کرتے ہیں۔ پنجابی کہتے ہیں کہ ماہ مقدس کے اس ایک ماہ کے دوران ہی وہ دہی وڑے فروخت کرتے ہیں، اس کام میں ان کا اہل خانہ بھی شامل رہتا ہے۔ باپو کے لسی دہے وڑے بھی اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں ہے جسے خریدنے کے لیے ممبئی کے متعد علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

شوکت علی سلطان پوری چنا بٹاٹے والے بھی طویل عرصے سے آلو چنا فروخت کرتے ہیں۔ ماہ مقدس میں اسے کھانے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ مینارہ مسجد اور اطراف کی یہ بازاریں ماہ مقدس میں روشنیوں اور قمقموں میں ڈوبی رہتی ہیں۔ یہ روایتی بازاریں علاقے کے متوسط طبقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ اسی لیے لوگ بڑی بے صبری سے پورے سال انتظار کرتے ہیں۔

ممبئی: ماہ رمضان میں کھاؤ گلی کی گہما گہمی

ممبئی: رمضان کے ماہِ مقدس میں جنوبی ممبئی کی بازاروں میں کافی ہجوم ہوتا ہے، ان بازاروں میں ایک کشش ہے جو کھانے کے شائقین کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ علاقائی لوگ اس بھیڑ سے بچنے کے لئے شاید ان بازاروں کا رخ کم ہی کرتے ہوں گے، لیکن دور دراز کے لوگ ان بازاروں اور یہاں ملنے والی اشیاء کے لئے بڑے بےچین ہوتے ہیں، کیونکہ ماہ مقدس کے علاوہ پھر یہ کھانے کی اشیاء کے لئے اگلے برس کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔

اگر آپ جنوبی ممبئی کی مینارہ مسجد بھینڈی بازار کی ان گلیوں میں تفریح اور یہاں کے انواع اقسام کھانوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو یہ پتہ ہونا بہت ضروری ہے کہ یہاں ماہ مقدس میں اسپیشل اشیاء کون کون سی ہیں۔

بھینڈی بازار میں سلیمان عثمان مٹھائی والے کی دکان بازار کے داخلی گیٹ پر ہی ہے، یہاں کا مالپوہ کھانے کے لیے لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے، ساتھ ہی پاس میں برہان پور ماوہ جلیبی کے اطراف میں کئی دکانیں ہیں لیکن خاص طور پر جلیبی ہی کھانی ہے تو جے جے جلیبی والا کی دوکان پر ضرور جائیں۔

شالیمار ہوٹل کے مالک عمیر شہاب الدین شیخ کہتے ہیں کہ رمضان میں سحری کے وقت لوگ قیمہ اور نہاری لینے دور دراز سے آتے ہیں حالانکہ عام دنوں میں صبح کا جو ناشتہ رہتا ہے اس میں یہ دو کھانے بڑھا دیے جاتے ہیں اور کھانے کے شائقین کا مطالبہ زیادہ تر قیمہ اور نہاری کے لیے ہی ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ افطار میں شالیمار فالودہ جس میں آئسکریم بنانے کا قدیم طریقہ ہے، جو برف کے سانچے میں ڈال کر کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تیار کی جاتی ہے۔ افطار میں چکن تنگڑی کباب، چکن اٹالین، حیدرآبادی حلیم، ترکش کنافه ، مالپوہ کی فرمائش سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

مینارہ مسجد کی کھاؤ گلی میں کھانے کی کئی ہوٹلیں ہیں، ان میں افطار سے لیکر سحر تک بھیڑ رہتی ہے۔ ماشاء اللہ ہوٹل کے ملک عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ہوٹل میں عام دنوں کی طرح کھانے کے لیے کئی مغلائی اور چائینز کے لئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں، لیکن اُنہوں نے ماہ مقدس میں سب سے زیادہ کھانے کے شائقین کو چکن برا کریم کھاتے دیکھا، چکن برا کریم کا یہ فارمولہ سیکریٹ ہے۔

علاقہ مسلمانوں کا ہے لیکن یہاں گجراتی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور متوسط طبقے کے لیے یہ ایک ماہ کی بازاریں کسی نعمت سے کم نہیں۔ انہی بازاروں میں دو حجابی بہنیں ہیں، جو یہاں بھانڈولی (پین کیک) بنا کر فروخت کرتی ہیں، یہ ایک گجراتی ڈیش ہے۔

یہ گجراتی پکوان ہے لیکن ممبئی میں اسے افطار کے وقت لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ شیر بانو کہتی ہیں کہ ان کی والدہ زبیدہ بانو اسی مقام پر آج سے 35 برس قبل بھانڈولی بنانے کی چھوٹی سی دوکان کی شروعات کی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بن گئی۔ جو ماہ مقدس کے ایک ماہ کے دوران اپنے گھر کے اخراجات اور دوسسری ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔

شیر بانو کہتی ہیں کی دور طفل سے ہی اسی علاقے کے بستی محلہ میں رہتی ہیں۔ والدہ کو اسی مقام پر گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھانڈولی بنا کر روزے داروں کو فروخت کرتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت بھی والدہ کے اس کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد ہم نے اس کی شروعات کی اور روزے داروں کے مطالبے کو پورا کیا۔

شیر بانو کی شادی ہو چکی ہے ان کے دو بچے ہیں۔ شوہر اے سی مکینک ہیں۔ شیر بانو کہتی ہیں کہ کوئی بھی کام چھوٹا نہیں ہوتا، ہم نے روزی روٹی کے لئے والدہ کو محنت کرتے دیکھا، ہم نے اپنی والدہ سے ہی سیکھا۔ آج والدہ نہیں ہیں لیکن یہ گلی اور یہ بازار اور یہاں کے روزے دار خریدار ان کے لئے کوئی نئے نہیں ہیں۔

بھنڈی بازار میں مینارہ مسجد کی ان گلیوں میں بیشتر پکوان ایک ماہ کے لئے یہاں بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 11 ماہ تک لوگ انتظار کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جو کاروبار کی نوعیت سے رمضان کے ساتھ پورے برس تک یہ کاوربار کرتے ہیں۔ عبدالقادر اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں طویل مدت سے ساندال بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ عبدالقادر کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے ان کا اہل خانہ گزشتہ ٢٠٠ برسوں سے وابستہ ہے، یہ ان کی آٹھویں نسل ہے۔

عبدالقادر کہتے ہیں کہ آج سے ٢٠٠ برس قبل ان کے آباو اجداد نے ماہ مقدس رمضان المبارک کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے اس کاروبار کی بنیاد ڈالی تھی۔ آغاز بہتر ہونے کے سبب عوام اور شائقین کے اسرار سے اسے روز مرہ کی طرح سال بھر فروخت کرنے لگے اور یہ کاروبار گزشتہ 200 برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ کورونا کے سبب دو برس بند ہونے کے باوجود بازار میں اس کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

63 برس کی فاطمہ ہارون ہالانی جو ممبئی کی مینارہ مسجد کی گلیوں میں طویل مدت سے ساندال بنا کر فروخت کرتی ہیں۔ ان کے شوہر کا 16 برس قبل انتقال ہو گیا ہے جس کے بعد اب ان کے اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ چکی ہے۔ اس لئے انہوں نے اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں رمضان میں اسے فروخت کرتی ہیں۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ گزشتہ ١٠٠ برس سے یہ کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے بجھجھک مینارہ مسجد کی ان گلیوں میں اسے فروخت کرنا شروع کیا۔ اس ایک ماہ کی ہونے والی آمدنی سے وہ برس کے 11 ماہ کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔

سلیم پنجابی گزشتہ 60 برسوں سے دہی وڑے فروخت کرتے ہیں۔ پنجابی کہتے ہیں کہ ماہ مقدس کے اس ایک ماہ کے دوران ہی وہ دہی وڑے فروخت کرتے ہیں، اس کام میں ان کا اہل خانہ بھی شامل رہتا ہے۔ باپو کے لسی دہے وڑے بھی اسی مینارہ مسجد کی گلیوں میں ہے جسے خریدنے کے لیے ممبئی کے متعد علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

شوکت علی سلطان پوری چنا بٹاٹے والے بھی طویل عرصے سے آلو چنا فروخت کرتے ہیں۔ ماہ مقدس میں اسے کھانے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ مینارہ مسجد اور اطراف کی یہ بازاریں ماہ مقدس میں روشنیوں اور قمقموں میں ڈوبی رہتی ہیں۔ یہ روایتی بازاریں علاقے کے متوسط طبقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ اسی لیے لوگ بڑی بے صبری سے پورے سال انتظار کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.