بنگلور: یہ کہا جاتا رہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم مشین) سے ملک کی جمہوریت کو خطرہ ہے اور مودی حکومت کو ای وی ایم سرکار کہا جاتا رہا۔ "ای وی ایم ہٹاؤ اور بیلٹ پیپر واپس لاؤ" کے نعرے کے ساتھ ای وی ایم کے خلاف سڑکوں پر اور قانونی طور پر مہم چلائی گئی۔ اس مطالبہ کے ساتھ کہ انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کو بند کردیا جائے۔ لیکن حال ہی میں سپریم کورٹ نے ای وی ایم پر اریگولاریٹیز کے الزام والی عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد بھی یہ کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن فری اینڈ فیئر الیکشنز کا وعدہ نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:
وزیراعظم مودی محض ایک مکھوٹہ ہیں، ای وی ایم کے بغیر انتخابات نہیں جیت سکتے: راہل گاندھی
اس سلسلہ میں جانے مانے دانشور شیوا سندر اور سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ شرف الدین احمد نے ای وی ایم کے متعلق کہا کہ الیکشن کمیشن و حکومت یا سپریم کورٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کی مانگ کے مطابق بیلٹ پیپر واپس لاکر اس کے اعتماد کو بحال کریں۔ اس سلسلہ میں شیو سندر نے کہا کہ یہ ای وی ایم نہیں ہے بلکہ میجاریٹیرین کے ذہنوں میں ہندوتوا کا زہر ہے جو کہ بی جے پی کی کامیابی کی وجہ ہے اور اسے شکست دینے کی ضرورت ہے۔
ایڈووکیٹ شرف الدین نے عوام سے اور خاص طور پر اپوزیشن پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے ای وی ایم مخالف تحریک شروع کریں اور ای وی ایم مشینوں کا بائیکاٹ کریں۔ اس سلسلہ میں شیو سندر نے کہا کہ یہ ای وی ایم نہیں ہے بلکہ ہندوتوا کا زہر بی جے پی کی کامیابی کی وجہ ہے جسے شکست دینے کی ضرورت ہے اور ایڈووکیٹ شرف الدین نے اپیل کی کہ پالیٹیکل پارٹیز ای وی ایم والے الیکشنز کا بائیکاٹ کریں۔
شیو سندر کہتے ہیں کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ جب زیادہ تر لوگوں کو شبہ ہے کہ انتخابی عمل ای وی ایم کے ذریعہ مشکوک ہوتا ہے تو پھر یہ الیکشن کمیشن، حکومت اور سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ کارروائی کو درست کریں، اس مسئلہ کو حل کریں اور لوگوں میں اعتماد پیدا کریں۔ وہ کہتے ہیں، ای وی ایم کے خلاف اٹھنے والا سوال صرف ٹیکنو کریٹ نہیں بلکہ جمہوری ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج مدن لوکور نے بیان کیا ہے۔ شیو سندر نے مزید کہا کہ وہ ذاتی طور پر یہ نہیں مانتے کہ بی جے پی، ای وی ایم میں ہیرا پھیری کرکے الیکشن جیتتی ہے، بلکہ آر ایس ایس-بی جے پی کے ذریعہ اکثریتی طبقوں میں ہندوتوا کا زہر داخل کیا گیا ہے اور اسے شکست دینے کی ضرورت ہے۔