لکھنو: دریا والی مسجد سے جلوس نکل کر کے چوک علاقے میں واقع غفرآنماب امام باڑے تک پہنچتا ہے۔ اصفی امام بڑے رومی دروازے سے ہوتا ہوا۔ غفرآنماب امام باڑے تک پہنچتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے معروف عالم دین مولانا کلب جواد نقوی نے کہا کہ اج کا جلوس حضرت عباس علمبردار کی یاد میں نکالا جاتا ہے کربلا کے میدان میں جب تین دن تک امام حسین اور ان کے 72 ساتھیوں پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔ خیمے میں بچے نوجوان خواتین پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ ایسے وقت میں حضرت امام حسین کے چھوٹے بھائی حضرت عباس دریائے فرات پر مشکیزے میں پانی بھرنے گئے تھے۔ اسی دوران یزیدی فوج نے ان پر تیر کی بارشیں کرنے لگی جس سے ان کا ایک بازو شہید ہو گیا تھا۔
اس کے بعد حضرت عباس نے مشکیزی کو اپنے دانت سے پکڑا اور خیمے کی طرف روانہ ہوئے بیچ راستے ہی میں یزیدی فوج نے گھیر لیا۔نیزوں کی بارش کر کے شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عربی گھوڑے بھی اس قدر وفادار ہوتے تھے کہ اس گھوڑے نے بھی پانی نہیں پیا جس وقت خیمے میں چھوٹے چھوٹے بچے خواتین پیاس کی شدت سے نڈھال ہو رہے تھے۔ آج جگہ جگہ پر سبیلیں لگائی جا رہی ہیں پانی تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حضرت عباس کی یاد میں کہ وہ پانی نہیں پہنچا پائے تھے تو ان کی یاد میں ہم لوگ عوام کو پانی تقسیم کرتے ہیں۔انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ میں دریاوالی مسجد کا اٹھ محرم کا جلوس بہت ہی تاریخی ہے۔ اس جلوس میں لکھنو اور اطراف کے لوگ بلا تفریق ملت و مذہب شامل ہوتے ہیں۔شبیہ روزے حضرت عباس کو بوسہ دیتے ہیں۔اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ یوں تو کربلا میں حضرت امام حسین کے 72 ساتھی شہید ہوئے ہر ایک کا الگ الگ واقعہ ہے۔ ایک ساتھ ان تمام لوگوں کے واقعات کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے 10 محرم تک ہر دن شہیدان کربلا کے ایک ایک فرد کی تاریخ بیان کی جاتی ہے اور ان کے شہادت کا ذکر کر کے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:لکھنؤ: قاسم کے مہدی کا جلوس شاہی انداز میں نکالا گیا -
انہوں نے بتایا کہ یہ جلوس پہلے مشال جلوس کے نام سے مشہور تھا جب یہ جدید قسم کی لائٹیں موجود نہیں ہوتی تھیں تو لوگ اپنے ہاتھوں میں مشال لے کر کے جلوس میں شرکت کرتے تھے لیکن اب جب لائٹوں کا ایجاد ہوا۔ اس کے باوجود بھی بطور نشانی ہزاروں کی تعداد میں لوگ مشال ہاتھوں میں بلند کیے رہتے ہیں اور یا سکینہ یا عباس کی صدائیں بلند کرتے ہوئے غفرانماب امام باڑے تک پہنچتے ہیں۔