لکھنؤ: مدرسہ بورڈ ختم ہونے کے بعد کیا نجی طور پر بھی مدرسہ نہیں چلا سکتے ہیں؟ اس موضوع پر مدرسہ بورڈ کے سرکاری وکیل افضال احمد صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت میں مسلسل تین دن تک بحث ہوئی اور ہم نے اپنے مضبوط دلائل کے ساتھ بحث کیا لیکن کورٹ نے مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو کیوں غیر ائینی قرار دیا الٹرا وائرس کہا یہ سمجھ سے پرے ہے ہو سکتا ہے کہ عدالت کو اپنی بات سمجھانے میں کہیں چوک ہو گئی اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شب و روز ہم لوگ محنت کر رہے تھے اور پوری دلیل دے رہے تھے اس کے باوجود بھی عدالت نے دلیل کو نہیں مانا اور یہ فیصلہ سامنے آیا۔
یہ بھی پڑھیں:
الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیرآئینی قرار دیا - up madarsa board
انہوں نے بتایا کہ اس فیصلہ کا اثر اتر پردیش کے سبھی مدرسوں پر پڑے گا خاص طور سے جو ریاست سے نیم امداد یافتہ مدارس ہیں انہیں جو گرانٹ دی جاتی تھی وہ اب نہیں مل پائی گی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کا مستقبل کیا ہوگا تاہم بچوں کو دوسری جگہ شفٹ کرنے کی بات بھی کورٹ نے کہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدرسوں کو حکومت گرانٹ دیتی ہے وہ مذہبی تعلیم کی بنیاد پہ نہیں دیتی ہے۔ قدیم زبان کو فروغ دینے کے لیے مثلاً عربی اور فارسی زبان کو فروغ دینے کے لیے مدرسوں کو گرانٹ دی جاتی ہے۔ یہ بات ہم نے کورٹ میں بھی رکھی تھی لیکن مدرسہ بورڈ کے نصاب میں ایک مضمون دینیات ہے۔ جس میں تفسیر، فقہ و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے اور دینیات کی تمام کتابوں کا عدالت نے مطالبہ کیا تھا ہم نے فراہم کر دیا۔ اس کے بعد انہیں لگا کہ مدرسوں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے حالانکہ اسی وقت ہم نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو نصاب کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ عدالت جو حکم دے گی اسی نصاب کو نافذ کیا جائے گا۔ اس کے باوجود بھی یہ فیصلہ آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سنسکرت بورڈ میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے حالانکہ اسے بھی حکومت قدیم زبان کے فروغ کے لیے گرانٹ دیتی ہے لیکن گیتا وید پران سمیت کئی مذہبی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلہ کا اثر یہ ہوگا کہ مدرسوں کو جو گرانٹ دی جا رہی ہے وہ گرانٹ بند ہو جائے گی۔ یوپی مدرسہ بورڈ کوئی امتحان منعقد نہیں کرا سکے گا بورڈ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو مدرسے چٹ فنڈ محکمہ سے رجسٹرڈ ہیں اور تنظیم کے تحت چل رہے ہیں وہ بطور ٹیوشن بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ لیکن مدرسہ بورڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ یوپی کے سبھی مدارس 2004 کے ایکٹ سے چلتے تھے۔ اس سے پہلے بھی مدرسہ ضابطۂ اخلاق تھا۔ جس کی وجہ سے مدرسے چلتے تھے لیکن 2004 میں یہ ایکٹ لایا گیا اور 2016 میں مدرسہ ضابطۂ اخلاق لایا گیا۔ جس کے بعد اب مدرسے انہی ایکٹ اور ضابطے اخلاق کے تحت چلتے تھے۔