ETV Bharat / opinion

قومی ڈاکٹرز ڈے کے موقع پر ڈاکٹر کے تاثرات - National Doctors Day 2024

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 1, 2024, 2:33 PM IST

ڈاکٹروں کا قومی دن، ڈاکٹر بدھن چندر رائے کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے جو اپنے زمانے کے ایک عظیم ڈاکٹر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی طبی میدان میں وقف کر دی۔ ڈاکٹر رائے نے مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ اس مضمون میں ڈاکٹر رگھو رام نے اپنے تاثرات کا اظہارخیال کیا ہے۔

National Doctor's Day 2024: Doctor's comments on the occasion of Doctor's Day
قومی ڈاکٹرز ڈے کے موقع پر ڈاکٹر کے تاثرات (Etv Bharat)

حیدرآباد: ڈاکٹرڈے ہر سال یکم جولائی کو ڈاکٹر بی سی رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ رائے، بھارت رتن ایوارڈ یافتہ، ماہرطبیب، انسان دوست، ماہر تعلیم اور بھارت کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزرائے اعلیٰ میں سے ایک رہے ہیں۔ ڈاکٹر بی سی رائے نے اپنی پوری زندگی میں بھارت کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے بہت محنت کی۔ یہ دن نہ صرف ڈاکٹر رائے بلکہ ان تمام ڈاکٹروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے جو ان کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں، زندگیوں کو بدلتے رہتے ہیں اور اپنے تجربے اور اپنی خدمت سے لاتعداد جانوں کو بچاتے ہیں۔

ڈاکٹر بی سی رائے نیشنل ایوارڈ (2017) کے وصول کنندہ کے طور پر، بھارت میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کو جو سب سے عظیم اعزاز مل سکتا ہے، وہ یہی ایوارڈ ہے جو مجھے دیا گیا تھا اور میرے لئے یہ بہت فخر اور اعزاز کی بات ہے۔

طبی برادری کے عزم اور لگن کو تسلیم کرنے کا یہ ایک اہم دن ہے:

سنسکرت کا ایک قدیم جملہ ہے "ویدیو نارائنو ہری" جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر بھگوان نارائنا اور بھگوان ہری خود ہیں۔ کچھ علاقوں میں، خاص طور پر دیہی بھارت میں، ایک ڈاکٹر کو 'خدا' کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔ مریض اپنے ڈاکٹروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی ان کے سپرد کرتے ہیں۔ بہت سے مواقعوں پر، وہ ایسی خفیہ بیماری کا انکشاف کرتے ہیں جو شاید خاندان کے کسی قریبی فرد کے علم میں بھی نہ ہو۔

مزید برآں، وہ اپنے جسم کو جانچ پڑتال کے لیے بے نقاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مکمل اجنبی کے ذریعے آپریشن کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جبکہ کسی اور پیشے میں ایسا اعتماد اور بھروسہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ اسی عقیدے کو طبی برادری کو ہمیشہ قدر اور حفاظت کرنی چاہیے۔ نیز، یہی وجہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے اخلاقی طرز عمل کی پابندی کرے اور اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بہت ہی مراعات یافتہ مقام پر ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے درمیان باہمی اعتماد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوئے ہوئے اعتماد کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں، اور واقعی، اس منفرد رشتے کو تقویت دینے کے لیے ڈاکٹرز ڈے سے بہتر کوئی اور دن نہیں ہو سکتا۔

طبی قابلیت اور اچھی گفتگو ہر ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے:

آج کے دور میں، جب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ شدید تناؤ کا شکار ہے، مواصلات کی مہارت اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ مریض کے ڈاکٹر کے کنسلٹنگ روم میں داخل ہونے سے لے کر مریض کی رضامندی لینے تک، چاہے بات وارڈ راؤنڈز کی ہو، بری خبروں سے لیکر اچھی بریکنگ کی ہو یا پھر میڈیا کو مخاطب کرنے کی ہو، ہر سطح پر انداز گفتگو اچھی ہونا چاہیے۔

مغربی نصاب میں ایک اہم مقام:

اگرچہ اخلاقیات اور مواصلات کی مہارتیں مغربی دنیا میں طبی نصاب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ بھارتی طبی نصاب کا حصہ نہیں تھا۔ تاہم، 2019 میں، نیشنل میڈیکل کمیشن نے نئے قابلیت پر مبنی طبی تعلیم کے نصاب (سی بی ایم ای) میں طبی اخلاقیات کو شامل کیا۔ اس کا مقصد ڈاکٹر کے لیے ضروری علم، رویوں اور اقدار کو فروغ دینا ہے، جس سے کہ وہ مریضوں کے ساتھ اپنے اخلاق کو بہتر بنا سکیں اور تعلقات کے اور بھی سنوار سکیں۔ کیونکہ جب تک ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ایک اچھا بانڈ نہیں ہوگا تن تک مریض کا ڈاکٹر پر بھروسہ کرنا مشکل ہے۔

طبی اخلاقیات کے علاوہ، کوئی کتنا ہی ذہین، باشعور اور ہنر مند کیوں نہ ہو، زندگی کے ہر پہلو میں اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر ہماری کوئی بھی کامیابی غیر متعلقہ ہو جائے گی۔ اس لیے اچھا انسان بننا سب سے اہم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ راموجی گروپ کے سابق چیئرمین جناب راموجی راؤ صاحب جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے وہ اخلاقیات کی علامت اور ہندوستان کے ایک بہترین مثالی شخصیت تھے۔

ڈاکٹروں کو معاشرے میں رول ماڈل ہونا چاہیے:

طب یا سرجری کا فن اور سائنس کی مشق کوئی "چوہے بلی کا کھیل" نہیں ہے۔ ڈاکٹر بننے سے زیادہ زندگی میں بہت کچھ ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ شوق کو اپنانا ہے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے اور معنی خیز بھی کہ ڈاکٹرز کو ایک اچھے جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہئے جس سے کمیونٹی اور معاشرے دونوں کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہماری 70 فیصد سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ بھارت میں 6,00,000 گاؤں ہیں۔ میری خواہش اور تمنا یہ ہے کہ اگر 6 لاکھ شہری جن کے پاس وسائل ہیں 6 لاکھ گاؤں کو اپنا لیں، تو امرت کال کے دوران آنے والے 25 سال بلاشبہ بھارت بھر کے لاتعداد لوگوں کے خوابوں، ان کے مقاصد اور انکی نیک خواہشات کو پورا کرنے کے اہل ہونگے۔

ڈاکٹروں کو وقتاً فوقتاً اپنے کیریئر پر غور کرنا چاہیے:

چھاتی کے کینسر پر قابو پانے والی اپنی ماں کی دیکھ بھال کرنا اور اپنی مادر وطن کی خدمت کرنا میرے لیے ایک نعمت ہے۔ چھاتی کے کینسر کا شروعات میں پتہ لگانا اور اس کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو بتانا اور میرے گود لیے ہوئے گاؤں (ابراہیم پور) میں لوگوں کی اس طرف توجہ دلانا، اس کی اہمیت بتانا اور پھر ان کا بھی اس پر مؤثر ردِعمل مجھے سب سے زیادہ اطمینان بخشتا ہے۔ سب سے اہم بات ہے کہ ان سب نے مجھے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے قابل بنایا ہے، جس نے میری زندگی کو کئی طریقوں سے پچھلے دو دہایوں سے مالا مال کیا ہے۔

ڈاکٹرز ڈے کے موقع پر، میں خود کو ایک اہم جز کی یاد دلانا چاہوں گا میرے نذدیک سب سے اہم عمل ہے وہ ہے کہ 'مریض کی بھلائی کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر رکھنا'۔ یوینی طور پر تبھی ہم ایک اچھا، صحتمند، اور خوش گوار ماحول تیار کرپائیں گے۔

نوٹ: مضمون نگار ڈاکٹر پی رگھو رام ہیں جن کو پدم شری اور ڈاکٹر بی سی رائے کے اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ آپ کمس۔اوشا لکشمی سینٹر فار بریسٹ کینسر، حیدرآباد کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔

حیدرآباد: ڈاکٹرڈے ہر سال یکم جولائی کو ڈاکٹر بی سی رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ رائے، بھارت رتن ایوارڈ یافتہ، ماہرطبیب، انسان دوست، ماہر تعلیم اور بھارت کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزرائے اعلیٰ میں سے ایک رہے ہیں۔ ڈاکٹر بی سی رائے نے اپنی پوری زندگی میں بھارت کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے بہت محنت کی۔ یہ دن نہ صرف ڈاکٹر رائے بلکہ ان تمام ڈاکٹروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے جو ان کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں، زندگیوں کو بدلتے رہتے ہیں اور اپنے تجربے اور اپنی خدمت سے لاتعداد جانوں کو بچاتے ہیں۔

ڈاکٹر بی سی رائے نیشنل ایوارڈ (2017) کے وصول کنندہ کے طور پر، بھارت میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کو جو سب سے عظیم اعزاز مل سکتا ہے، وہ یہی ایوارڈ ہے جو مجھے دیا گیا تھا اور میرے لئے یہ بہت فخر اور اعزاز کی بات ہے۔

طبی برادری کے عزم اور لگن کو تسلیم کرنے کا یہ ایک اہم دن ہے:

سنسکرت کا ایک قدیم جملہ ہے "ویدیو نارائنو ہری" جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر بھگوان نارائنا اور بھگوان ہری خود ہیں۔ کچھ علاقوں میں، خاص طور پر دیہی بھارت میں، ایک ڈاکٹر کو 'خدا' کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔ مریض اپنے ڈاکٹروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی ان کے سپرد کرتے ہیں۔ بہت سے مواقعوں پر، وہ ایسی خفیہ بیماری کا انکشاف کرتے ہیں جو شاید خاندان کے کسی قریبی فرد کے علم میں بھی نہ ہو۔

مزید برآں، وہ اپنے جسم کو جانچ پڑتال کے لیے بے نقاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مکمل اجنبی کے ذریعے آپریشن کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جبکہ کسی اور پیشے میں ایسا اعتماد اور بھروسہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ اسی عقیدے کو طبی برادری کو ہمیشہ قدر اور حفاظت کرنی چاہیے۔ نیز، یہی وجہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے اخلاقی طرز عمل کی پابندی کرے اور اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بہت ہی مراعات یافتہ مقام پر ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے درمیان باہمی اعتماد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوئے ہوئے اعتماد کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں، اور واقعی، اس منفرد رشتے کو تقویت دینے کے لیے ڈاکٹرز ڈے سے بہتر کوئی اور دن نہیں ہو سکتا۔

طبی قابلیت اور اچھی گفتگو ہر ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے:

آج کے دور میں، جب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ شدید تناؤ کا شکار ہے، مواصلات کی مہارت اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ مریض کے ڈاکٹر کے کنسلٹنگ روم میں داخل ہونے سے لے کر مریض کی رضامندی لینے تک، چاہے بات وارڈ راؤنڈز کی ہو، بری خبروں سے لیکر اچھی بریکنگ کی ہو یا پھر میڈیا کو مخاطب کرنے کی ہو، ہر سطح پر انداز گفتگو اچھی ہونا چاہیے۔

مغربی نصاب میں ایک اہم مقام:

اگرچہ اخلاقیات اور مواصلات کی مہارتیں مغربی دنیا میں طبی نصاب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ بھارتی طبی نصاب کا حصہ نہیں تھا۔ تاہم، 2019 میں، نیشنل میڈیکل کمیشن نے نئے قابلیت پر مبنی طبی تعلیم کے نصاب (سی بی ایم ای) میں طبی اخلاقیات کو شامل کیا۔ اس کا مقصد ڈاکٹر کے لیے ضروری علم، رویوں اور اقدار کو فروغ دینا ہے، جس سے کہ وہ مریضوں کے ساتھ اپنے اخلاق کو بہتر بنا سکیں اور تعلقات کے اور بھی سنوار سکیں۔ کیونکہ جب تک ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ایک اچھا بانڈ نہیں ہوگا تن تک مریض کا ڈاکٹر پر بھروسہ کرنا مشکل ہے۔

طبی اخلاقیات کے علاوہ، کوئی کتنا ہی ذہین، باشعور اور ہنر مند کیوں نہ ہو، زندگی کے ہر پہلو میں اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر ہماری کوئی بھی کامیابی غیر متعلقہ ہو جائے گی۔ اس لیے اچھا انسان بننا سب سے اہم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ راموجی گروپ کے سابق چیئرمین جناب راموجی راؤ صاحب جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے وہ اخلاقیات کی علامت اور ہندوستان کے ایک بہترین مثالی شخصیت تھے۔

ڈاکٹروں کو معاشرے میں رول ماڈل ہونا چاہیے:

طب یا سرجری کا فن اور سائنس کی مشق کوئی "چوہے بلی کا کھیل" نہیں ہے۔ ڈاکٹر بننے سے زیادہ زندگی میں بہت کچھ ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ شوق کو اپنانا ہے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے اور معنی خیز بھی کہ ڈاکٹرز کو ایک اچھے جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہئے جس سے کمیونٹی اور معاشرے دونوں کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہماری 70 فیصد سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ بھارت میں 6,00,000 گاؤں ہیں۔ میری خواہش اور تمنا یہ ہے کہ اگر 6 لاکھ شہری جن کے پاس وسائل ہیں 6 لاکھ گاؤں کو اپنا لیں، تو امرت کال کے دوران آنے والے 25 سال بلاشبہ بھارت بھر کے لاتعداد لوگوں کے خوابوں، ان کے مقاصد اور انکی نیک خواہشات کو پورا کرنے کے اہل ہونگے۔

ڈاکٹروں کو وقتاً فوقتاً اپنے کیریئر پر غور کرنا چاہیے:

چھاتی کے کینسر پر قابو پانے والی اپنی ماں کی دیکھ بھال کرنا اور اپنی مادر وطن کی خدمت کرنا میرے لیے ایک نعمت ہے۔ چھاتی کے کینسر کا شروعات میں پتہ لگانا اور اس کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو بتانا اور میرے گود لیے ہوئے گاؤں (ابراہیم پور) میں لوگوں کی اس طرف توجہ دلانا، اس کی اہمیت بتانا اور پھر ان کا بھی اس پر مؤثر ردِعمل مجھے سب سے زیادہ اطمینان بخشتا ہے۔ سب سے اہم بات ہے کہ ان سب نے مجھے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے قابل بنایا ہے، جس نے میری زندگی کو کئی طریقوں سے پچھلے دو دہایوں سے مالا مال کیا ہے۔

ڈاکٹرز ڈے کے موقع پر، میں خود کو ایک اہم جز کی یاد دلانا چاہوں گا میرے نذدیک سب سے اہم عمل ہے وہ ہے کہ 'مریض کی بھلائی کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر رکھنا'۔ یوینی طور پر تبھی ہم ایک اچھا، صحتمند، اور خوش گوار ماحول تیار کرپائیں گے۔

نوٹ: مضمون نگار ڈاکٹر پی رگھو رام ہیں جن کو پدم شری اور ڈاکٹر بی سی رائے کے اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ آپ کمس۔اوشا لکشمی سینٹر فار بریسٹ کینسر، حیدرآباد کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.