ETV Bharat / literature

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر: فیض احمد فیض - Faiz Ahmed Faiz

بلا شبہ فیض احمد فیض اردو ادب کا ایک عظیم نام ہے۔ فیض نے اپنی شاعری کی ابتداء رومانی فضا میں کی لیکن اس کے ساتھ ہی ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور انقلابی سوچ کے زیر اثر یوں ہوا کہ رومانویت اورانقلابی منڈیروں پران کی شاعری کا دیا کبھی مدھم تو کبھی تیز روشنی کے ساتھ جلتا رہا۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل صبحِ آزادی ملاحظہ فرمائیں...

Faiz Ahmed Faiz
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر: فیض احمد فیض (Photo: Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 31, 2024, 1:06 PM IST

حیدرآباد: مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر فیض احمد فیص ہیں۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت اسٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔ فیض احمد فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 کو تقسیمِ ہند سے پہلے سیالکوٹ میں ہوئی۔ فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر سے ہی ہوا۔

انہوں نے گھر میں ہی اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کا داخلہ انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں کرا دیا گیا جس کے صدر خود ان کے والد تھے۔ فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931 میں عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 1933 میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر 1934 میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

فیض نے شاعری میں رومانیت کے ساتھ اشتراک کے عناصر کو بھی یکجا کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجموعہ کلام نقش فریادی کی لا فانی نظم 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' میں ملتی ہے۔ فیض کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ جو خیالات ان کی زندگی کو متاثر کر رہے تھے وہ ان کی شاعری کو بھی مزید بلند بنا رہے تھے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل صبحِ آزادی ملاحظہ فرمائیں...

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور

نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

حیدرآباد: مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر فیض احمد فیص ہیں۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت اسٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔ فیض احمد فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 کو تقسیمِ ہند سے پہلے سیالکوٹ میں ہوئی۔ فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر سے ہی ہوا۔

انہوں نے گھر میں ہی اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کا داخلہ انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں کرا دیا گیا جس کے صدر خود ان کے والد تھے۔ فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931 میں عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 1933 میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر 1934 میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

فیض نے شاعری میں رومانیت کے ساتھ اشتراک کے عناصر کو بھی یکجا کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجموعہ کلام نقش فریادی کی لا فانی نظم 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' میں ملتی ہے۔ فیض کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ جو خیالات ان کی زندگی کو متاثر کر رہے تھے وہ ان کی شاعری کو بھی مزید بلند بنا رہے تھے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل صبحِ آزادی ملاحظہ فرمائیں...

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور

نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.