ETV Bharat / literature

جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو، خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی کا آج یومِ ولادت - Shakeel Badayuni Birthday

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 3, 2024, 4:47 PM IST

برِصغیر کے معروف شعرا میں نمایاں، عمدہ غزل گو شاعر، مشہور نغمہ نگار اور مشہور ومقبول شاعر شکیلؔ بدایونی صاحب کا آج یومِ ولادت ہے۔

Today is the birthday of famous and popular poet Shakeel Badayuni
خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی کا آج یومِ ولادت (ETV Bharat Urdu)

حیدرآباد: ہندی سنیما میں بطور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا شمار ان منتخب نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے گیت، غزل، بھجن اور حب الوطنی کے گانوں سے طویل عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ ان کا نام شکیل احمد، تخلص شکیلؔ اور تاریخی نام عبدالغفار احمد تھا۔ وہ 03؍ اگست 1916ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی، ابتدائی تعلیم اردو، فارسی اور عربی کی ہوئی۔ 1936ء میں میٹرک مشن ہائی اسکول، شیخوپورہ (بدایوں) سے کیا۔ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد حکومت ہند کے محکمۂ سپلائی میں کلرک بھرتی ہوگئے۔ وہ دلی میں 1946ء تک رہے۔

Today is the birthday of famous and popular poet Shakeel Badayuni
خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی کا آج یومِ ولادت (ETV Bharat Urdu)

فروری 1946ء میں شکیل احمد ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے۔ مشہور فلم ساز کاردار کے ایما پر مستقل طور پر بمبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے۔ انھوں نے گیتوں سے بہت روپیہ کمایا۔ شکیل کو ذیابیطیس کی موروثی شکایت تھی۔ وہ 20؍ اپریل 1970ء کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ وہ ضیاء القادری سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب صدی تقریبات کے سلسلے میں گورنر یوپی (شری گوپال ریڈی) نے ان کے وطن بدایوں میں شکیل روڈ کا افتتاح کیا۔

Today is the birthday of famous and popular poet Shakeel Badayuni
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو (ETV Bharat Urdu)

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:👇

’’رعنائیاں‘‘، ’’صنم وحرم‘‘، ’’رنگینیاں‘‘، ’’شبستاں‘‘ اور ’’نغمۂ فردوس‘‘ (نعتیہ کلام)۔

(بحوالۂ: پیمانۂ غزل (جلد دوم)، محمد شمس الحق، صفحہ: 73۔ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ)

معروف نغمہ نگار، شاعر شکیلؔ بدایونی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہی کاررواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا

پیہم تلاش دوست میں کرتا چلا گیا

کونین کی حدوں سے گزرتا چلا گیا

تری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا

کہیں زندگی کی بارش کہیں قتل عام دیکھا

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں

مجھ سے اب خونِ تمنا نہیں دیکھا جاتا

شعر و ادب کی راہ میں ہے گامزن شکیلؔ

اپنے مخالفین کی پروا کیے بغیر

بیگانہ ہو کے بزمِ جہاں دیکھتا ہوں میں

دنیا کے رنگ و بو کا سماں دیکھتا ہوں میں

جام گردش میں ہے دربند ہیں مے خانوں کے

کچھ فرشتے ہیں یہاں روپ میں انسانوں کے

ترکِ الفت کو زمانہ ہو گیا لیکن شکیلؔ

آج پھر میرا اور ان کا سامنا ہونے کو ہے

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نقاب میں

جلوؤں سے انتقام نظر چاہتا ہوں میں

تہمیدِ ستم اور ہے تکمیلِ جفا اور

چکھنے کا مزا اور ہے پینے کا مزا اور

ظاہر یہ کر رہی ہیں شب غم کی نزہتیں

کوئی چھپا ہوا مری تنہائیوں میں ہے

کب تک شکیلؔ دل کو دعا کیجیے گا آپ

بہتر یہی ہے ان کو بھلا دیجیے گا آپ

اس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرتِ غم ہے

جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکرِ معاش

منزلِ جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا

خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا

ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا

ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے

پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصۂ بہار

گلشن سے ہٹ کے گوشۂ داماں میں آ گئے

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات

کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

اے شکیلؔ روح پرور تری بے خودی کے نغمے

مگر آج تک نہ ہم نے ترے لب پہ جام دیکھا

یہ بھی پڑھیں:

خصوصی رپورٹ: شکیل بدایونی، بے مثال شاعر، لازوال نغمہ نگار

خصوصی رپورٹ: خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی

”جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو”

حیدرآباد: ہندی سنیما میں بطور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا شمار ان منتخب نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے گیت، غزل، بھجن اور حب الوطنی کے گانوں سے طویل عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ ان کا نام شکیل احمد، تخلص شکیلؔ اور تاریخی نام عبدالغفار احمد تھا۔ وہ 03؍ اگست 1916ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی، ابتدائی تعلیم اردو، فارسی اور عربی کی ہوئی۔ 1936ء میں میٹرک مشن ہائی اسکول، شیخوپورہ (بدایوں) سے کیا۔ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد حکومت ہند کے محکمۂ سپلائی میں کلرک بھرتی ہوگئے۔ وہ دلی میں 1946ء تک رہے۔

Today is the birthday of famous and popular poet Shakeel Badayuni
خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی کا آج یومِ ولادت (ETV Bharat Urdu)

فروری 1946ء میں شکیل احمد ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے۔ مشہور فلم ساز کاردار کے ایما پر مستقل طور پر بمبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے۔ انھوں نے گیتوں سے بہت روپیہ کمایا۔ شکیل کو ذیابیطیس کی موروثی شکایت تھی۔ وہ 20؍ اپریل 1970ء کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ وہ ضیاء القادری سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب صدی تقریبات کے سلسلے میں گورنر یوپی (شری گوپال ریڈی) نے ان کے وطن بدایوں میں شکیل روڈ کا افتتاح کیا۔

Today is the birthday of famous and popular poet Shakeel Badayuni
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو (ETV Bharat Urdu)

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:👇

’’رعنائیاں‘‘، ’’صنم وحرم‘‘، ’’رنگینیاں‘‘، ’’شبستاں‘‘ اور ’’نغمۂ فردوس‘‘ (نعتیہ کلام)۔

(بحوالۂ: پیمانۂ غزل (جلد دوم)، محمد شمس الحق، صفحہ: 73۔ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ)

معروف نغمہ نگار، شاعر شکیلؔ بدایونی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہی کاررواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا

پیہم تلاش دوست میں کرتا چلا گیا

کونین کی حدوں سے گزرتا چلا گیا

تری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا

کہیں زندگی کی بارش کہیں قتل عام دیکھا

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں

مجھ سے اب خونِ تمنا نہیں دیکھا جاتا

شعر و ادب کی راہ میں ہے گامزن شکیلؔ

اپنے مخالفین کی پروا کیے بغیر

بیگانہ ہو کے بزمِ جہاں دیکھتا ہوں میں

دنیا کے رنگ و بو کا سماں دیکھتا ہوں میں

جام گردش میں ہے دربند ہیں مے خانوں کے

کچھ فرشتے ہیں یہاں روپ میں انسانوں کے

ترکِ الفت کو زمانہ ہو گیا لیکن شکیلؔ

آج پھر میرا اور ان کا سامنا ہونے کو ہے

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نقاب میں

جلوؤں سے انتقام نظر چاہتا ہوں میں

تہمیدِ ستم اور ہے تکمیلِ جفا اور

چکھنے کا مزا اور ہے پینے کا مزا اور

ظاہر یہ کر رہی ہیں شب غم کی نزہتیں

کوئی چھپا ہوا مری تنہائیوں میں ہے

کب تک شکیلؔ دل کو دعا کیجیے گا آپ

بہتر یہی ہے ان کو بھلا دیجیے گا آپ

اس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرتِ غم ہے

جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکرِ معاش

منزلِ جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا

خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا

ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا

ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے

پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصۂ بہار

گلشن سے ہٹ کے گوشۂ داماں میں آ گئے

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات

کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

اے شکیلؔ روح پرور تری بے خودی کے نغمے

مگر آج تک نہ ہم نے ترے لب پہ جام دیکھا

یہ بھی پڑھیں:

خصوصی رپورٹ: شکیل بدایونی، بے مثال شاعر، لازوال نغمہ نگار

خصوصی رپورٹ: خوبصورت غزلوں کے شاعر شکیل بدایونی

”جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو”

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.