ETV Bharat / jammu-and-kashmir

عسکریت پسندوں کے پاس غیر ملکی ہتھیار کہاں سے آئے؟ - Militants attack On Kathua

پچھلے کچھ برسوں میں جموں و کشمیر میں عسکریت پسند امریکی ساختہ M4 کاربائن اسالٹ رائفلز کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کٹھوعہ سمیت حالیہ حملوں کے دوران اس رائفل کے زیادہ استعمال کے بعد صورت حال تشویشناک ہے۔

عسکریت پسندوں کے پاس غیر ملکی ہتھیار کہاں سے آئے؟
عسکریت پسندوں کے پاس غیر ملکی ہتھیار کہاں سے آئے؟ ((ای ٹی وی بھارت))
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 11, 2024, 11:49 AM IST

جموں: سال 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ان کے 'بچے ہوئے' ہتھیار پاکستانی ہینڈلرز کے ذریعے عسکریت پسندوں تک پہنچ چکے ہیں۔ M4 کاربائن ایک ہلکا پھلکا، گیس سے چلنے والا، ایئر کولڈ، میگزین فیڈ اور کندھے سے چلنے والا ہتھیار ہے۔

1980 کی دہائی سے اب تک 500,000 سے زیادہ یونٹس کے ساتھ، M4 کئی قسموں میں دستیاب ہے۔ رائفل میں فی منٹ 700-970 راؤنڈ فائرنگ کی شرح اور 500-600 میٹر کی موثر فائرنگ کی حد کا دعوی کیا جاتا ہے۔ M4 کاربائن رائفلز کو 1980 کی دہائی میں ڈیزائن اور تیار کیا گیا تھا اور نیٹو کی طرف سے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا، جس کا ایک ورژن مبینہ طور پر پاکستانی اسپیشل فورسز اور سندھ پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے ساتھ شامل ہے۔

یہ رائفل شام کی خانہ جنگی، عراقی خانہ جنگی، یمنی خانہ جنگی، کولمبیا کی جنگ، کوسوو کی جنگ، نائن الیون کے بعد عراق اور افغانستان کی جنگ سمیت کئی جنگوں میں استعمال ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ان اسالٹ رائفلز کا مسلسل استعمال 2021 میں افغانستان سے نکلتے وقت امریکی فوج کے پیچھے چھوڑے جانے والے ہتھیاروں اور اسٹیل گولیوں کی زیادہ مہلک نوعیت کی وجہ سے تشویش کا موضوع ہیں۔

دفاعی ماہر لیفٹیننٹ جنرل سنجے کلکرنی نے کہا کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے بعد انہوں نے اسلحے اور گولہ بارود کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان میں سے بیشتر کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کیننائزیشن اور اس جیسی چیزوں کے ساتھ یہ ہتھیار عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ہے جو ایم 4 کاربائن رائفلز جیسے جدید ہتھیاروں سے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہی ہے تاکہ جموں و کشمیر میں اپنے 'ناپاک عزائم' کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ہندوستانی فوج میں اپنے دور میں جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے والے کلکرنی کا ماننا ہے کہ امریکی فوج سے بچا ہوا ہتھیار اب آئی ایس آئی کے پاس چلا گیا ہے جو انہیں عسکریت پسندوں کی تربیت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ M4 رائفلز میں اسٹیل کی گولیاں ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان کا استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ مختلف قسم کی پابندیوں کے تحت آتی ہیں۔جموں و کشمیر میں M4 کاربائن رائفل کی بازیابی کا پہلا معاملہ 7 نومبر 2017 کو سامنے آیا تھا، جب جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بھتیجے طلحہ راشد مسعود کو جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔

2018 میں کشمیر کے پلوامہ میں سیکورٹی فورسز کے ذریعہ دوسری بار یہ ہتھیار اس وقت برآمد کیا گیا تھا، جب اظہر کا ایک اور بھتیجا عثمان ابراہیم مارا گیا تھا۔ بعد ازاں 11 جولائی 2022 کو جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع کے اونتی پورہ علاقے میں ایک تصادم کے مقام سے ایک M4 کاربائن رائفل برآمد ہوئی، جہاں جیش محمد کمانڈر قیصر کوکا اور ایک اور عسکریت پسند مارا گیا تھا۔

امریکہ کے افغانستان میں ہتھیار چھوڑنے کے بعد کشمیر میں ان کا استعمال بڑے پیمانے پر دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں جموں خطہ میں تمام بڑے حملوں میں ایم 4 کاربائن کا استعمال کیا گیا تھا، بشمول 8 جولائی کو کٹھوعہ حملہ، جس میں گھات لگا کر حملے میں پانچ فوجی مارے گئے تھے۔

گزشتہ 9 جون کو ریاسی حملے میں مبینہ طور پر اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا تھا، جب عسکریت پسندوں نے سیاحوں کی بس پر حملہ کیا تھا، جس میں 9 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہوئے تھے۔ دو ہفتے بعد 26 جون کو جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ایک عسکریت پسند سے اسلحہ اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ برآمد ہوا۔

دفاعی ذرائع نے نے اعتراف کیا کہ ایم 4 جیسے جدید ہتھیاروں سے ہلاکتوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، لیکن وہ پر امید ہیں کہ سیکورٹی فورسز اس چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹیں گی۔ دفاعی تجزیہ نگار نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس سے بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی غیر محفوظ ہو جاتے ہیں جو خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جموں صوبہ عسکری کارروائیوں کا نیا مرکز

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز اور جموں و کشمیر پولیس کئی سالوں سے اس کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمیں آنے والے وقتوں میں بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سیکیورٹی فورسز ایسے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوں گی کہ ایسی صورتحال کا سامنا کیسے کیا جائے جہاں آپ کا دشمن اس طرح کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو۔

جموں: سال 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ان کے 'بچے ہوئے' ہتھیار پاکستانی ہینڈلرز کے ذریعے عسکریت پسندوں تک پہنچ چکے ہیں۔ M4 کاربائن ایک ہلکا پھلکا، گیس سے چلنے والا، ایئر کولڈ، میگزین فیڈ اور کندھے سے چلنے والا ہتھیار ہے۔

1980 کی دہائی سے اب تک 500,000 سے زیادہ یونٹس کے ساتھ، M4 کئی قسموں میں دستیاب ہے۔ رائفل میں فی منٹ 700-970 راؤنڈ فائرنگ کی شرح اور 500-600 میٹر کی موثر فائرنگ کی حد کا دعوی کیا جاتا ہے۔ M4 کاربائن رائفلز کو 1980 کی دہائی میں ڈیزائن اور تیار کیا گیا تھا اور نیٹو کی طرف سے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا، جس کا ایک ورژن مبینہ طور پر پاکستانی اسپیشل فورسز اور سندھ پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے ساتھ شامل ہے۔

یہ رائفل شام کی خانہ جنگی، عراقی خانہ جنگی، یمنی خانہ جنگی، کولمبیا کی جنگ، کوسوو کی جنگ، نائن الیون کے بعد عراق اور افغانستان کی جنگ سمیت کئی جنگوں میں استعمال ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ان اسالٹ رائفلز کا مسلسل استعمال 2021 میں افغانستان سے نکلتے وقت امریکی فوج کے پیچھے چھوڑے جانے والے ہتھیاروں اور اسٹیل گولیوں کی زیادہ مہلک نوعیت کی وجہ سے تشویش کا موضوع ہیں۔

دفاعی ماہر لیفٹیننٹ جنرل سنجے کلکرنی نے کہا کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے بعد انہوں نے اسلحے اور گولہ بارود کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان میں سے بیشتر کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کیننائزیشن اور اس جیسی چیزوں کے ساتھ یہ ہتھیار عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ہے جو ایم 4 کاربائن رائفلز جیسے جدید ہتھیاروں سے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہی ہے تاکہ جموں و کشمیر میں اپنے 'ناپاک عزائم' کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ہندوستانی فوج میں اپنے دور میں جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے والے کلکرنی کا ماننا ہے کہ امریکی فوج سے بچا ہوا ہتھیار اب آئی ایس آئی کے پاس چلا گیا ہے جو انہیں عسکریت پسندوں کی تربیت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ M4 رائفلز میں اسٹیل کی گولیاں ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان کا استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ مختلف قسم کی پابندیوں کے تحت آتی ہیں۔جموں و کشمیر میں M4 کاربائن رائفل کی بازیابی کا پہلا معاملہ 7 نومبر 2017 کو سامنے آیا تھا، جب جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بھتیجے طلحہ راشد مسعود کو جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔

2018 میں کشمیر کے پلوامہ میں سیکورٹی فورسز کے ذریعہ دوسری بار یہ ہتھیار اس وقت برآمد کیا گیا تھا، جب اظہر کا ایک اور بھتیجا عثمان ابراہیم مارا گیا تھا۔ بعد ازاں 11 جولائی 2022 کو جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع کے اونتی پورہ علاقے میں ایک تصادم کے مقام سے ایک M4 کاربائن رائفل برآمد ہوئی، جہاں جیش محمد کمانڈر قیصر کوکا اور ایک اور عسکریت پسند مارا گیا تھا۔

امریکہ کے افغانستان میں ہتھیار چھوڑنے کے بعد کشمیر میں ان کا استعمال بڑے پیمانے پر دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں جموں خطہ میں تمام بڑے حملوں میں ایم 4 کاربائن کا استعمال کیا گیا تھا، بشمول 8 جولائی کو کٹھوعہ حملہ، جس میں گھات لگا کر حملے میں پانچ فوجی مارے گئے تھے۔

گزشتہ 9 جون کو ریاسی حملے میں مبینہ طور پر اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا تھا، جب عسکریت پسندوں نے سیاحوں کی بس پر حملہ کیا تھا، جس میں 9 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہوئے تھے۔ دو ہفتے بعد 26 جون کو جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ایک عسکریت پسند سے اسلحہ اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ برآمد ہوا۔

دفاعی ذرائع نے نے اعتراف کیا کہ ایم 4 جیسے جدید ہتھیاروں سے ہلاکتوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، لیکن وہ پر امید ہیں کہ سیکورٹی فورسز اس چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹیں گی۔ دفاعی تجزیہ نگار نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس سے بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی غیر محفوظ ہو جاتے ہیں جو خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جموں صوبہ عسکری کارروائیوں کا نیا مرکز

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز اور جموں و کشمیر پولیس کئی سالوں سے اس کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمیں آنے والے وقتوں میں بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سیکیورٹی فورسز ایسے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوں گی کہ ایسی صورتحال کا سامنا کیسے کیا جائے جہاں آپ کا دشمن اس طرح کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.