ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کیا کابینہ کی قرارداد مرکز کو ریاستی حیثیت بحال کرنے پر مجبور کرے گی؟

پڈوچیری اسمبلی نے 1972 سے اب تک 15 قراردادیں منظور کیں مگر ریاستی درجہ اب بھی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مانند۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 2 hours ago

کیا کابینہ کی قرارداد مرکز کو ریاستی حیثیت بحال کرنے پر مجبور کرے گی؟
کیا کابینہ کی قرارداد مرکز کو ریاستی حیثیت بحال کرنے پر مجبور کرے گی؟ (ETV Bharat Graphics)

سرینگر : جموں کشمیر کی نو منتخب حکومت کی پہلی کابینہ میٹنگ میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور لداخ کو ایک الگ یونین ٹیریٹری بنایا گیا، جب کہ دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت/نیم خودمختاری حاصل تھی۔ اس وقت سے یونین ٹیریٹری براہِ راست مرکزی حکومت کے زیر انتظام رہی اور لیفٹیننٹ گورنر نے یہاں مرکز کی نمائندگی کی۔

عمر عبداللہ، یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے، جس سے منتخب حکومت کا جموں کشمیر یو ٹی میں آغاز ہوا۔ جموں و کشمیر میں جون 2018 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) - بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت گرنے کے بعد سے صدر راج نافذ تھا۔ لیکن نیشنل کانفرنس (این سی) کی جانب سے حالیہ منعقد ہوئے اسمبلی الیکشن میں 42 نشستیں جیتنے کے بعد اور اتحادی کانگریس کی سات اور پانچ آزاد اراکین کی حمایت کے ساتھ، عمر عبداللہ نے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا اور 11 اکتوبر کو صدر راج ختم کر دیا گیا۔

عمر عبداللہ کی بحیثیت وزیر اعلیٰ حلف برداری کے دوسرے ہی دن، عمر عبداللہ کی کابینہ نے یونین ٹیریٹری کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کی قرارداد منظور کی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس مسودے کو وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے پیش کریں گے۔ لیکن قانونی طور پر یہ قرارداد مرکز پر لازم نہیں ہے اور اسے محض ایک علامتی قدم سمجھا جاتا ہے، جو حکومت کے ایجنڈے کی نمائندگی کرتا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی بحالی کے لیے جد و جہد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین ٹیریٹری کا نظم و نسق جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ (J&K Reorganisation Act ) کے تحت جاری و ساری ہے، جس کی رو سے منتخب حکومت کے اختیارات محدود ہیں۔ ایک سابق اعلیٰ قانونی افسر، جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کابینہ کے فیصلے صرف ان امور پر لاگو ہوتے ہیں جو حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

آفسیر کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ مرکز پر لازم نہیں ہے۔ یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اسے مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ ایک حوالہ کے لئے یادگاری نقطہ رہے گا اور اس کی سیاسی اور علامتی اہمیت ہوگی۔ اس کا مقصد مرکز پر ریاستی حیثیت کی بحالی کے وعدے کی پیروی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، لیکن حتمی فیصلہ مرکز کے پاس ہے۔‘‘

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ اجلاس کے ساتھ ساتھ دیگر مواقع پر بھی جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی دفعہ 370 کی منسوخی کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی حیثیت بحال کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا، تاہم کورٹ نے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا۔

ریاستی اسمبلی کے اختیارات کم ہیں اور قانون و نظم، جیل، پراسیکیوشن جیسے اہم امور اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے، نیشنل کانفرنس نے وعدہ کیا تھا کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف قرارداد منظور کی جائے گی اور جموں و کشمیر کو اگست 2019 کی حیثیت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن قانونی ماہرین اور ایک سابق اسپیکر کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی قراردادیں مرکز پر قانونی طور پر لازم نہیں ہوتیں۔

نیشنل کانفرنس کے ایک رکن اسمبلی نے کہا: ’’اسمبلی، عوام کی رائے کی نمائندگی کرتی ہے لیکن یہ مودی حکومت پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس رائے کو مانے۔‘‘ جون 2000 میں فاروق عبداللہ کی حکومت نے اسمبلی میں خود مختاری (Autonomy) کی قرارداد منظور کی تھی، لیکن اس وقت کی این ڈی اے حکومت نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔‘‘ این سی لیڈر کے مطابق ’’تاہم خودمختاری کی وہ قرارداد ایک تاریخی دستاویز کے طور پر باقی ہے اور مستقبل کے لیے ایک حوالہ (Reference Point) کے طور پر محفوظ ہے، حالانکہ اسے اس وقت کی بی جے پی حکومت نے قبول نہیں کیا۔‘‘

ایک سابق سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 پر اسمبلی کی سفارشات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، لیکن یہ عوامی جذبات کی عکاسی کر سکتی ہے۔ ایک مثال پڈوچیری یونین ٹیریٹری کی اسمبلی کی ہے، جس نے اگست 2024 میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کی اور سال1972سے اب تک کل 15 قراردادیں منظور کی ہیں، تاہم مرکزی سرکار نے ایک بار بھی اس قراردار کی منظوری کے لیے پینل تشکیل نہیں دی۔

ایک رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ ’’پڈوچیری ایک یونین ٹیریٹری ہی تھی جبکہ جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کیا گیا تھا۔ لہذا، ہم وہ مانگ رہے ہیں جو ہم سے چھینا گیا تھا، ہم کوئی نئی چیز نہیں مانگ رہے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ’’اس قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تاہم اس سے مرکزی حکومت پر جموں کشمیر کی 2019سے قبل کی پوزیشن بحال کیے جانے سے متعلق دباؤ بنے گا۔‘‘

حزب اختلاف نے ریاستی حیثیت کی قرارداد پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے آرٹیکل 370 کے مطالبے سے ’’راہ فرار اختیار کرنے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہوگا، وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ اس بیچ، نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی مبارک گل کو یونین اسمبلی کا عبوری اسپیکر مقرر کیا گیا ہے، اور وہ 21 اکتوبر کو نو منتخب اراکین سے حلف لیں گے۔ ادھر، این سی کے ایک سینئر رہنما نے کابینہ کی قرارداد کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’ابھی بہت وقت ہے، حزب اختلاف کو صبر کرنا چاہیے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر کابینہ میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کےلئے قرارداد منظور، وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پی ایم مودی سے ملاقات کریں گے

سرینگر : جموں کشمیر کی نو منتخب حکومت کی پہلی کابینہ میٹنگ میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور لداخ کو ایک الگ یونین ٹیریٹری بنایا گیا، جب کہ دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت/نیم خودمختاری حاصل تھی۔ اس وقت سے یونین ٹیریٹری براہِ راست مرکزی حکومت کے زیر انتظام رہی اور لیفٹیننٹ گورنر نے یہاں مرکز کی نمائندگی کی۔

عمر عبداللہ، یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے، جس سے منتخب حکومت کا جموں کشمیر یو ٹی میں آغاز ہوا۔ جموں و کشمیر میں جون 2018 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) - بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت گرنے کے بعد سے صدر راج نافذ تھا۔ لیکن نیشنل کانفرنس (این سی) کی جانب سے حالیہ منعقد ہوئے اسمبلی الیکشن میں 42 نشستیں جیتنے کے بعد اور اتحادی کانگریس کی سات اور پانچ آزاد اراکین کی حمایت کے ساتھ، عمر عبداللہ نے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا اور 11 اکتوبر کو صدر راج ختم کر دیا گیا۔

عمر عبداللہ کی بحیثیت وزیر اعلیٰ حلف برداری کے دوسرے ہی دن، عمر عبداللہ کی کابینہ نے یونین ٹیریٹری کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کی قرارداد منظور کی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس مسودے کو وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے پیش کریں گے۔ لیکن قانونی طور پر یہ قرارداد مرکز پر لازم نہیں ہے اور اسے محض ایک علامتی قدم سمجھا جاتا ہے، جو حکومت کے ایجنڈے کی نمائندگی کرتا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی بحالی کے لیے جد و جہد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین ٹیریٹری کا نظم و نسق جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ (J&K Reorganisation Act ) کے تحت جاری و ساری ہے، جس کی رو سے منتخب حکومت کے اختیارات محدود ہیں۔ ایک سابق اعلیٰ قانونی افسر، جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کابینہ کے فیصلے صرف ان امور پر لاگو ہوتے ہیں جو حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

آفسیر کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ مرکز پر لازم نہیں ہے۔ یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اسے مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ ایک حوالہ کے لئے یادگاری نقطہ رہے گا اور اس کی سیاسی اور علامتی اہمیت ہوگی۔ اس کا مقصد مرکز پر ریاستی حیثیت کی بحالی کے وعدے کی پیروی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، لیکن حتمی فیصلہ مرکز کے پاس ہے۔‘‘

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ اجلاس کے ساتھ ساتھ دیگر مواقع پر بھی جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی دفعہ 370 کی منسوخی کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی حیثیت بحال کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا، تاہم کورٹ نے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا۔

ریاستی اسمبلی کے اختیارات کم ہیں اور قانون و نظم، جیل، پراسیکیوشن جیسے اہم امور اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے، نیشنل کانفرنس نے وعدہ کیا تھا کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف قرارداد منظور کی جائے گی اور جموں و کشمیر کو اگست 2019 کی حیثیت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن قانونی ماہرین اور ایک سابق اسپیکر کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی قراردادیں مرکز پر قانونی طور پر لازم نہیں ہوتیں۔

نیشنل کانفرنس کے ایک رکن اسمبلی نے کہا: ’’اسمبلی، عوام کی رائے کی نمائندگی کرتی ہے لیکن یہ مودی حکومت پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس رائے کو مانے۔‘‘ جون 2000 میں فاروق عبداللہ کی حکومت نے اسمبلی میں خود مختاری (Autonomy) کی قرارداد منظور کی تھی، لیکن اس وقت کی این ڈی اے حکومت نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔‘‘ این سی لیڈر کے مطابق ’’تاہم خودمختاری کی وہ قرارداد ایک تاریخی دستاویز کے طور پر باقی ہے اور مستقبل کے لیے ایک حوالہ (Reference Point) کے طور پر محفوظ ہے، حالانکہ اسے اس وقت کی بی جے پی حکومت نے قبول نہیں کیا۔‘‘

ایک سابق سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 پر اسمبلی کی سفارشات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، لیکن یہ عوامی جذبات کی عکاسی کر سکتی ہے۔ ایک مثال پڈوچیری یونین ٹیریٹری کی اسمبلی کی ہے، جس نے اگست 2024 میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کی اور سال1972سے اب تک کل 15 قراردادیں منظور کی ہیں، تاہم مرکزی سرکار نے ایک بار بھی اس قراردار کی منظوری کے لیے پینل تشکیل نہیں دی۔

ایک رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ ’’پڈوچیری ایک یونین ٹیریٹری ہی تھی جبکہ جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کیا گیا تھا۔ لہذا، ہم وہ مانگ رہے ہیں جو ہم سے چھینا گیا تھا، ہم کوئی نئی چیز نہیں مانگ رہے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ’’اس قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تاہم اس سے مرکزی حکومت پر جموں کشمیر کی 2019سے قبل کی پوزیشن بحال کیے جانے سے متعلق دباؤ بنے گا۔‘‘

حزب اختلاف نے ریاستی حیثیت کی قرارداد پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے آرٹیکل 370 کے مطالبے سے ’’راہ فرار اختیار کرنے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہوگا، وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ اس بیچ، نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی مبارک گل کو یونین اسمبلی کا عبوری اسپیکر مقرر کیا گیا ہے، اور وہ 21 اکتوبر کو نو منتخب اراکین سے حلف لیں گے۔ ادھر، این سی کے ایک سینئر رہنما نے کابینہ کی قرارداد کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’ابھی بہت وقت ہے، حزب اختلاف کو صبر کرنا چاہیے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر کابینہ میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کےلئے قرارداد منظور، وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پی ایم مودی سے ملاقات کریں گے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.