سرینگر: ہائی کورٹ جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے اُن پرائیویٹ اسکولوں کو بڑی راحت دی ہے جو کمیونٹی اور سرکاری زمینوں پر قائم ہیں۔ 15 اپریل 2022 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کو آئین کے خلاف قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی جس پر عدالت نے اس کی سماعت کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس تاشی ربستان نے اپنے فیصلے میں کہا کہ "جہاں اسکول کچرائی یا سرکاری زمین وغیرہ پر چلائے جا رہے ہیں وہاں درخواست دہندگان یا تو ملکیتی زمین حاصل کر سکتے ہیں یا وہ محکمہ تعلیم یو ٹی جموں وکشمیر کے پرنسپل سیکرٹری یا جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن سے رجوع کر سکتے ہیں اور زمین کے تبادلے کی درخواست دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ لینڈ ریونیو ایکٹ یا کسی دوسرے قابل اطلاق قانون کے تحت دستیاب ہو سکتا ہے۔"
تمام اسکول مالکان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آج سے چار ہفتوں کے اندر اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ "محکمہ تعلیم جموں وکشمیر کے پرنسپل سیکرٹری اور بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کو موصول ہونے والی درخواستوں کو خود یا کمیٹی کے ذریعے جس میں محکمہ تعلیم کے سینئر افسران یا بورڈ آف اسکول ایجوکیشن، محکمہ مال یا کسی دوسرے متعلقہ محکمہ کے افسران شامل ہوں گے چار ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے۔
جب تک زمین کے حقوق فراہم نہیں کیے جاتے تمام درخواست دہندگان کو اسکول چلانے کی اجازت دی جائے گی۔ عدالت عالیہ کے احکامات کے مطابق اسکول موجودہ حالت میں رہیں گے جب تک حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرتی ہے۔
ادھر پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن جموں و کشمیرنے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے کہا کہ یہ حکم لاکھوں غریب طلباء کے مستقبل کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ اس حکم سے ان تمام طلباء کے کیریئر کو برباد ہونے سے بچایا جا سکتا یے جو اس طرح کے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: