ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیر میں دوران حمل ذیابیطس کی شرح میں اضافہ - WHAT IS GESTATIONAL DIABETES

ڈاکٹر رضوی کے مطابق عورت حاملہ ہوتی ہے تو کوکھ میں موجود بچہ کے تحفظ کےلئے جسم میں کچھ ہارمون زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔

کشمیر میں دوران حمل ذیابیطس کی شرح میں اضافہ
کشمیر میں دوران حمل ذیابیطس کی شرح میں اضافہ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 27, 2024, 3:30 PM IST

سرینگر : ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں خواتین میں دوران حمل ذیابطیس ہونے کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں جیسٹیشنل ذیابطیس والی خواتین اور ان سے پیداہونے والے بچے کو بھی مستبقل میں شوگر کی بیماری ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ ان باتوں کا اظہار امراض خواتین کی ماہر ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے ای ٹی وی بھارت کے نمائیندے پرویز الدین کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔

کشمیر میں دوران حمل ذیابیطس کی شرح میں اضافہ (Etv Bharat)

انہوں نے کہا کہ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے. تو اس کا جسم کچھ ہارمون ضرورت سے زیادہ پیدا کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہارمون ماں کی کوکھ میں موجود بچے کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر جب وقت کے ساتھ ساتھ ان ہارمون کی شرح خون میں بڑھتی جاتی ہے ۔تو اس وجہ سے خون کے اندر انسولین کے خلاف ایک مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے. جس وجہ سے خون میں شوگر کا لیول بڑھ جاتا ہے ۔جس کو جیٹیشنل ذیابطیس کہتے ہیں

ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ ملکی سطح پر ذیابیطس ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے وہیں جموں وکشمیر میں بھی دوران حمل خواتین میں ذیابیطس بیماری کی شرح بڑھ رہی ہےجو کہ کچھ برس پہلے کم یا نہ کے برابر دیکھنے کو ملتی تھی۔ ابتدائی علامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ عام طور پر اچھی ماہر امراض نسواں روٹین چیک اپ میں 24 ہفتے کے بعد شوگر کا ٹیسٹ باقاعدگی سے کرواتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ علامات بھی اس بیماری کے ہونے کی آگاہی کا سبب ہوتی ہیں ۔اگر حاملہ ماں کو بہت زیادہ تھکان ہو۔اور بار بار پیشاب آرہا ہو۔ اس کے علاوہ پیاس کا لگنا بھی اس بیماری کی ابتدائی علامات میں سے کچھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوران حمل خواتین میں ذیابیطس ہونے کے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ جن میں تاخیر سے شادی،ذیابیطس سے متعلق پچھلی یا خاندانی تاریخ، موٹاپا،۔زیادہ وزن،بیہودہ طرز زندگی وغیرہ شامل ہیں۔ وہیں ان خواتین میں حمل کے دوران جیسٹیشنل ہونے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے جن کی عمر 45 سے زائد ہو،لبلبہ یا پولی سسٹک اووری سنڈروم کی کسی بھی بیماری سے پہلے ہی مبتلا ہوں

پیچیدگیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دوران حمل ماں میں ذیابطیس کا مرض کوکھ میں پلنے والے بچے سے زیادہ حاملہ ماں کے لیے کچھ صورتوں میں خطرناک ہو سکتا ہے۔اگرچہ اب گھروں میں بچوں کی پیدائش کے رحجان میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن شہری علاقوں میں بھی اکثر خواتین حمل کی تصدیق کے کئی ماہ بعد ڈاکٹر کے پاس باقاعدگی سے جانا شروع کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی حاملہ خاتون کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی تصدیق نہ ہو سکے تو اس پر اور پیدا ہونے والے بچے پر سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ حمل کے ہر گزرتے ماہ میں شوگر کی مقدار بڑھنے سے پیٹ میں موجود بچے پر اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ماں کی ذیابیطس کنٹرول میں نہیں ہے تو بچے کے دماغ، دل یا ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسرے اگر ماں کو پہلے ذیابیطس نہ ہو بعد میں ہو جائے اور اسے علم نہ ہو سکے ایسے میں یہ ہو سکتا ہے کہ بچے کے گرد موجود پانی کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس صورت میں بچے کا وزن زیادہ ہو سکتا ہے اور بچے کا وزن زیادہ ہونے سے بھی مسائل ہو سکتے ہیں جیسا کہ نارمل ڈلیوری کا نہ ہونا۔ ایسی صورت میں اگر نارمل ڈیلیوری کی کوشش کی جائے تو بہت سے دیگر مسائل پیش آ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: "انسولین رزیسٹینس" کو سمجھنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر آسیہ


دوران حمل ذیابطیس کے علاج پر انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں علاج کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ماں کے خون میں شوگر کا لیول کتنا ہائی ہے ۔ بعض اوقات ڈاکٹر ابتدائی صورتحال میں ماں کو پرہیز اور ہلکی پھلکی ورزش کے ذریعے شوگر کو کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود بھی یہ لیول کم نہ ہو۔ تو دس سے بیس فی صد تک ایسی حاملہ خواتین کو انسولین کے انجکشن لگانےکا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ جو کہ حمل کی مدت کی تکمیل تک لگاۓ جاتے ہیں ۔ ڈیلیوری کے بعد خون میں شوگر کا لیول خود بخود نارمل ہو جاتا ہے۔لیکن ایسی خاتون عمر بھر ذیابیطس ہونے کے ہائی رسک پر رہتی ہے۔وہیں اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ بھی آگے جا کر ذیابطیس کی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

سرینگر : ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں خواتین میں دوران حمل ذیابطیس ہونے کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں جیسٹیشنل ذیابطیس والی خواتین اور ان سے پیداہونے والے بچے کو بھی مستبقل میں شوگر کی بیماری ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ ان باتوں کا اظہار امراض خواتین کی ماہر ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے ای ٹی وی بھارت کے نمائیندے پرویز الدین کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔

کشمیر میں دوران حمل ذیابیطس کی شرح میں اضافہ (Etv Bharat)

انہوں نے کہا کہ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے. تو اس کا جسم کچھ ہارمون ضرورت سے زیادہ پیدا کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہارمون ماں کی کوکھ میں موجود بچے کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر جب وقت کے ساتھ ساتھ ان ہارمون کی شرح خون میں بڑھتی جاتی ہے ۔تو اس وجہ سے خون کے اندر انسولین کے خلاف ایک مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے. جس وجہ سے خون میں شوگر کا لیول بڑھ جاتا ہے ۔جس کو جیٹیشنل ذیابطیس کہتے ہیں

ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ ملکی سطح پر ذیابیطس ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے وہیں جموں وکشمیر میں بھی دوران حمل خواتین میں ذیابیطس بیماری کی شرح بڑھ رہی ہےجو کہ کچھ برس پہلے کم یا نہ کے برابر دیکھنے کو ملتی تھی۔ ابتدائی علامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ عام طور پر اچھی ماہر امراض نسواں روٹین چیک اپ میں 24 ہفتے کے بعد شوگر کا ٹیسٹ باقاعدگی سے کرواتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ علامات بھی اس بیماری کے ہونے کی آگاہی کا سبب ہوتی ہیں ۔اگر حاملہ ماں کو بہت زیادہ تھکان ہو۔اور بار بار پیشاب آرہا ہو۔ اس کے علاوہ پیاس کا لگنا بھی اس بیماری کی ابتدائی علامات میں سے کچھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوران حمل خواتین میں ذیابیطس ہونے کے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ جن میں تاخیر سے شادی،ذیابیطس سے متعلق پچھلی یا خاندانی تاریخ، موٹاپا،۔زیادہ وزن،بیہودہ طرز زندگی وغیرہ شامل ہیں۔ وہیں ان خواتین میں حمل کے دوران جیسٹیشنل ہونے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے جن کی عمر 45 سے زائد ہو،لبلبہ یا پولی سسٹک اووری سنڈروم کی کسی بھی بیماری سے پہلے ہی مبتلا ہوں

پیچیدگیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دوران حمل ماں میں ذیابطیس کا مرض کوکھ میں پلنے والے بچے سے زیادہ حاملہ ماں کے لیے کچھ صورتوں میں خطرناک ہو سکتا ہے۔اگرچہ اب گھروں میں بچوں کی پیدائش کے رحجان میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن شہری علاقوں میں بھی اکثر خواتین حمل کی تصدیق کے کئی ماہ بعد ڈاکٹر کے پاس باقاعدگی سے جانا شروع کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی حاملہ خاتون کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی تصدیق نہ ہو سکے تو اس پر اور پیدا ہونے والے بچے پر سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سید معصومہ رضوی نے کہا کہ حمل کے ہر گزرتے ماہ میں شوگر کی مقدار بڑھنے سے پیٹ میں موجود بچے پر اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ماں کی ذیابیطس کنٹرول میں نہیں ہے تو بچے کے دماغ، دل یا ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسرے اگر ماں کو پہلے ذیابیطس نہ ہو بعد میں ہو جائے اور اسے علم نہ ہو سکے ایسے میں یہ ہو سکتا ہے کہ بچے کے گرد موجود پانی کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس صورت میں بچے کا وزن زیادہ ہو سکتا ہے اور بچے کا وزن زیادہ ہونے سے بھی مسائل ہو سکتے ہیں جیسا کہ نارمل ڈلیوری کا نہ ہونا۔ ایسی صورت میں اگر نارمل ڈیلیوری کی کوشش کی جائے تو بہت سے دیگر مسائل پیش آ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: "انسولین رزیسٹینس" کو سمجھنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر آسیہ


دوران حمل ذیابطیس کے علاج پر انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں علاج کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ماں کے خون میں شوگر کا لیول کتنا ہائی ہے ۔ بعض اوقات ڈاکٹر ابتدائی صورتحال میں ماں کو پرہیز اور ہلکی پھلکی ورزش کے ذریعے شوگر کو کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود بھی یہ لیول کم نہ ہو۔ تو دس سے بیس فی صد تک ایسی حاملہ خواتین کو انسولین کے انجکشن لگانےکا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ جو کہ حمل کی مدت کی تکمیل تک لگاۓ جاتے ہیں ۔ ڈیلیوری کے بعد خون میں شوگر کا لیول خود بخود نارمل ہو جاتا ہے۔لیکن ایسی خاتون عمر بھر ذیابیطس ہونے کے ہائی رسک پر رہتی ہے۔وہیں اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ بھی آگے جا کر ذیابطیس کی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.