ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں و کشمیر میں منتخب حکومت کے ساتھ ہی کشمیر میں ملازم یونینیں دوبارہ متحرک، برطرف ملازمین کو انصاف کی امید

جموں و کشمیراین سی۔کانگریس اتحاد حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی کشمیر میں ملازم یونینیں دوبارہ متحرک ہو گئی ہیں۔

کشمیر میں ملازم یونینیں
کشمیر میں ملازم یونینیں (Getty Images)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 2 hours ago

سری نگر: جموں و کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی واپسی کے ساتھ ہی یونین ٹیریٹری میں خاموشی اختیار کی ہوئیں سرکاری ملازم یونین اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد برطرف کیے گئے ملازمین نے آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

جیسے ہی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اور اس کے ایک دن بعد ان کے پانچ کابینی وزراء نے سری نگر کے سول سیکرٹریٹ میں دفتری کام کاج شروع کیا، کشمیر میں ملازم یونینوں نے عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ کے استقبال کے لیے میڈیا کو مدعو کرنا شروع کر دیا۔

یہ یونین لیڈر آرٹیکل 370 کی منسوخی اور نومبر 2023 میں لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ ایک گیگ آرڈر کے بعد بڑی حد تک خاموش اور روپوش تھے۔

اپنے بلند و بانگ لہجے میں، یونین لیڈروں نے عمر کی قیادت والی حکومت کو ان وعدوں کی یاد دلائی جو انھوں نے اپنی پارٹی کے منشور میں کیے تھے، جس میں حکمرانی، فلاح و بہبود اور 20 اگست 2020 کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیے گئے بہت سے فیصلوں کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما سجاد احمد اور وجاہت درانی کو منتخب حکومت سے کئی امیدیں وابستہ ہیں۔

جل شکتی محکمہ میں کام کرنے والے احمد یونین کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عمر عبداللہ حکومت نے یومیہ اجرت کو ریگولرائز کرنے کا وعدہ کیا ہے اور انہیں اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ حکومت کو اکثریت اور مستحکم حمایت حاصل ہے۔

اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں کام کرنے والے درانی نے کہا کہ EJAC پانچ اگست 2019 کے بعد ملازمین کی آواز اٹھاتا رہا ہے اور ملازمین کے مسائل کو اٹھاتا رہے گا۔

انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ، "ای جیک عوامی حکومت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ حکومت کے ساتھ وفاداری اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چونکہ ہم ایک ہی حکومت کے ملازم ہیں اس لیے ہم حکومت کو ہموار حکمرانی کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ این سی حکومت نے ملازمین کے مسائل کے ازالے کی فہرست بنائی ہے اور ہم عمر صاحب کو ملازمین کے بارے میں منشور یاد دلائیں گے،‘‘ ۔

انہوں نے کہا کہ 2008-2014 میں جب عمر عبداللہ وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ملازمین کے بہت سے مسائل حل کئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ عمر صاحب اپنے دوسرے دور میں ہمارے مسائل حل کر لیں گے۔

محکمہ خوراک، سول سپلائیز اور کنزیومر افیئرز کے ملازم و ایمپلائز جوائنٹ کنسلٹیٹو کمیٹی کے صدر اعجاز احمد خان نے کہا کہ حکومت کو اسمبلی انتخابات میں عوام اور ملازمین کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔

اعجاز احمد خان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ، "ہم توقع کرتے ہیں کہ منتخب حکومت احتجاج اور آواز اٹھانے کی آزادی دے گی۔ ہم وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو مطالبات کا ایک میمورنڈم بھیجیں گے، اور وزیراعلیٰ اور ان کے کابینہ کے وزراء سے ملاقات بھی کریں گے،" ۔

حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کی طرف سے 3 نومبر 2023 کو جاری کردہ ایک حکم کے مطابق سڑکوں پر آنے پر ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا گیا تھا۔ اس طرح یہ حکم نامہ ملازمین کی یونینوں کی بحالی اور ان کے مظاہروں پر ایک گرفت ہے۔

فیاض احمد، ایک سرکاری ٹیچر ہیں جو جموں و کشمیر ایمپلائز کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایل جی انتظامیہ نے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کے ذریعے ملازمین کے احتجاج پر پابندی لگا دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ، "ہم حکومت، ایل جی اور سیکورٹی ایجنسیوں سے آرڈر پر نظرثانی کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔"

3 نومبر 2023 کو جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز (کنڈکٹ) رولز 1971 کے قاعدہ 20 (ii) کے مطابق ملازمین کی طرف سے کوئی بھی مظاہرے اور ہڑتالیں سنگین بے ضابطگی کی کارروائی ہیں۔

درانی نے کہا کہ ، ’’ہم وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت سے حکم کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کی اپیل کریں گے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ منتخب حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی ٹریڈ یونینوں کا فعال ہونا عمر کی زیرقیادت حکومت کے لیے ایک "سگنل" تھا۔

درانی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ "دوبارہ فعال ہونا" کوئی "سگنل" نہیں بلکہ ایک منتخب اور "اپنی" حکومت سے توقعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ، اب ہمارے پاس عوامی حکومت ہے، جمہوریت بحال ہو چکی ہے۔ عوام کو حکومت سے توقعات وابستہ ہیں۔ لہذا ہماری سرگرمی عوامی حلقوں میں آوازوں کی بحالی کا ردعمل ہے،"

جموں و کشمیر کے 4.5 لاکھ ملازمین جن میں بیشتر بہت سے مسائل سے دوچار ہیں، ان میں سے 74 ملازمین کو ایل جی کی طرف سے برطرف کرنا، آرٹیکل 311 (2) کا استعمال کرنا، یونینوں اور عمر کی قیادت والی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔

درانی نے کہا کہ منتخب حکومت کو چاہیے کہ وہ برطرف اور معطل ملازمین کے کیسز کا جائزہ لے کر منصفانہ تحقیقات کا حکم دے، "مجرموں کو سزا دے اور بے گناہوں کو بحال کرے"۔

ایک برطرف ملازم نے کہا کہ منتخب حکومت نہ صرف ان کی بحالی کی امید کا ذریعہ ہے بلکہ انصاف کا بھی معاملہ ہے جس کا عمر عبداللہ نے این سی کے منشور میں وعدہ کیا تھا۔

ملازم نے پوچھا کہ منتخب حکومت اور مسلط کردہ بیوروکریٹک حکمرانی میں کیا فرق رہ جائے گا اگر منتخب حکومت ہمارے مقدمات کو حل نہیں کرتی۔

برطرف کیے گئے 74 افراد میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، پولیس اہلکار اور دیگر ملازمین شامل ہیں۔ برطرف کیے گئے ملازمین میں سے 67 کا تعلق کشمیر سے ہے جبکہ سات کا تعلق جموں خطہ کے چناب اور پیر پنجال اضلاع سے ہے۔

نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے کہا کہ این سی کی قیادت والی حکومت ایک مقبول حکومت ہے جس میں ہر شخص کو پرامن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ برطرف ملازمین کو بحال کرنے پر انہوں نے کہا کہ پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا ہے کہ برطرف ملازمین کے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا۔

صادق نے کہا، "حکومت کو ان تمام مقدمات پر نظر ثانی کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

سری نگر: جموں و کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی واپسی کے ساتھ ہی یونین ٹیریٹری میں خاموشی اختیار کی ہوئیں سرکاری ملازم یونین اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد برطرف کیے گئے ملازمین نے آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

جیسے ہی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اور اس کے ایک دن بعد ان کے پانچ کابینی وزراء نے سری نگر کے سول سیکرٹریٹ میں دفتری کام کاج شروع کیا، کشمیر میں ملازم یونینوں نے عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ کے استقبال کے لیے میڈیا کو مدعو کرنا شروع کر دیا۔

یہ یونین لیڈر آرٹیکل 370 کی منسوخی اور نومبر 2023 میں لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ ایک گیگ آرڈر کے بعد بڑی حد تک خاموش اور روپوش تھے۔

اپنے بلند و بانگ لہجے میں، یونین لیڈروں نے عمر کی قیادت والی حکومت کو ان وعدوں کی یاد دلائی جو انھوں نے اپنی پارٹی کے منشور میں کیے تھے، جس میں حکمرانی، فلاح و بہبود اور 20 اگست 2020 کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیے گئے بہت سے فیصلوں کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما سجاد احمد اور وجاہت درانی کو منتخب حکومت سے کئی امیدیں وابستہ ہیں۔

جل شکتی محکمہ میں کام کرنے والے احمد یونین کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عمر عبداللہ حکومت نے یومیہ اجرت کو ریگولرائز کرنے کا وعدہ کیا ہے اور انہیں اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ حکومت کو اکثریت اور مستحکم حمایت حاصل ہے۔

اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں کام کرنے والے درانی نے کہا کہ EJAC پانچ اگست 2019 کے بعد ملازمین کی آواز اٹھاتا رہا ہے اور ملازمین کے مسائل کو اٹھاتا رہے گا۔

انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ، "ای جیک عوامی حکومت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ حکومت کے ساتھ وفاداری اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چونکہ ہم ایک ہی حکومت کے ملازم ہیں اس لیے ہم حکومت کو ہموار حکمرانی کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ این سی حکومت نے ملازمین کے مسائل کے ازالے کی فہرست بنائی ہے اور ہم عمر صاحب کو ملازمین کے بارے میں منشور یاد دلائیں گے،‘‘ ۔

انہوں نے کہا کہ 2008-2014 میں جب عمر عبداللہ وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ملازمین کے بہت سے مسائل حل کئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ عمر صاحب اپنے دوسرے دور میں ہمارے مسائل حل کر لیں گے۔

محکمہ خوراک، سول سپلائیز اور کنزیومر افیئرز کے ملازم و ایمپلائز جوائنٹ کنسلٹیٹو کمیٹی کے صدر اعجاز احمد خان نے کہا کہ حکومت کو اسمبلی انتخابات میں عوام اور ملازمین کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔

اعجاز احمد خان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ، "ہم توقع کرتے ہیں کہ منتخب حکومت احتجاج اور آواز اٹھانے کی آزادی دے گی۔ ہم وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو مطالبات کا ایک میمورنڈم بھیجیں گے، اور وزیراعلیٰ اور ان کے کابینہ کے وزراء سے ملاقات بھی کریں گے،" ۔

حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کی طرف سے 3 نومبر 2023 کو جاری کردہ ایک حکم کے مطابق سڑکوں پر آنے پر ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا گیا تھا۔ اس طرح یہ حکم نامہ ملازمین کی یونینوں کی بحالی اور ان کے مظاہروں پر ایک گرفت ہے۔

فیاض احمد، ایک سرکاری ٹیچر ہیں جو جموں و کشمیر ایمپلائز کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایل جی انتظامیہ نے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کے ذریعے ملازمین کے احتجاج پر پابندی لگا دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ، "ہم حکومت، ایل جی اور سیکورٹی ایجنسیوں سے آرڈر پر نظرثانی کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔"

3 نومبر 2023 کو جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز (کنڈکٹ) رولز 1971 کے قاعدہ 20 (ii) کے مطابق ملازمین کی طرف سے کوئی بھی مظاہرے اور ہڑتالیں سنگین بے ضابطگی کی کارروائی ہیں۔

درانی نے کہا کہ ، ’’ہم وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت سے حکم کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کی اپیل کریں گے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ منتخب حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی ٹریڈ یونینوں کا فعال ہونا عمر کی زیرقیادت حکومت کے لیے ایک "سگنل" تھا۔

درانی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ "دوبارہ فعال ہونا" کوئی "سگنل" نہیں بلکہ ایک منتخب اور "اپنی" حکومت سے توقعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ، اب ہمارے پاس عوامی حکومت ہے، جمہوریت بحال ہو چکی ہے۔ عوام کو حکومت سے توقعات وابستہ ہیں۔ لہذا ہماری سرگرمی عوامی حلقوں میں آوازوں کی بحالی کا ردعمل ہے،"

جموں و کشمیر کے 4.5 لاکھ ملازمین جن میں بیشتر بہت سے مسائل سے دوچار ہیں، ان میں سے 74 ملازمین کو ایل جی کی طرف سے برطرف کرنا، آرٹیکل 311 (2) کا استعمال کرنا، یونینوں اور عمر کی قیادت والی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔

درانی نے کہا کہ منتخب حکومت کو چاہیے کہ وہ برطرف اور معطل ملازمین کے کیسز کا جائزہ لے کر منصفانہ تحقیقات کا حکم دے، "مجرموں کو سزا دے اور بے گناہوں کو بحال کرے"۔

ایک برطرف ملازم نے کہا کہ منتخب حکومت نہ صرف ان کی بحالی کی امید کا ذریعہ ہے بلکہ انصاف کا بھی معاملہ ہے جس کا عمر عبداللہ نے این سی کے منشور میں وعدہ کیا تھا۔

ملازم نے پوچھا کہ منتخب حکومت اور مسلط کردہ بیوروکریٹک حکمرانی میں کیا فرق رہ جائے گا اگر منتخب حکومت ہمارے مقدمات کو حل نہیں کرتی۔

برطرف کیے گئے 74 افراد میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، پولیس اہلکار اور دیگر ملازمین شامل ہیں۔ برطرف کیے گئے ملازمین میں سے 67 کا تعلق کشمیر سے ہے جبکہ سات کا تعلق جموں خطہ کے چناب اور پیر پنجال اضلاع سے ہے۔

نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے کہا کہ این سی کی قیادت والی حکومت ایک مقبول حکومت ہے جس میں ہر شخص کو پرامن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ برطرف ملازمین کو بحال کرنے پر انہوں نے کہا کہ پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا ہے کہ برطرف ملازمین کے کیسز کا جائزہ لیا جائے گا۔

صادق نے کہا، "حکومت کو ان تمام مقدمات پر نظر ثانی کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.