سرینگر: کشمیر کا نام ذہن میں آتے ہی، فلک بوس اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کا تصور ہوتا ہے، تاہم رواں سیزن وادی کشمیر کے میدانی علاقے تقریباً برف سے محروم ہی رہے جبکہ بالائی علاقوں میں بھی محض نام کی ہی برفباری ہوئی۔ عام طور پر دسمبر اور جنوری میں برف کی سفید چادر سے ڈھکی رہنے والی وادی نے 43 برسوں کے اپنے خشک ترین اور گرم ترین جنوری کا مشاہدہ کیا، جس سے ماحولیاتی نقصان اور مختلف شعبوں پر اثرات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔
محکمہ موسمیات، سرینگر کی جانب سے مشتہر کیے گئے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کے کئی حصوں بشمول دارالحکومت سرینگر میں درجہ حرارت میں اضافہ اور بارش میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ قومی موسمیاتی ادرہ (آئی ایم ڈی) نے اطلاع دی ہے کہ سرینگر شہر کو گزشتہ چار دہائیوں میں جنوری کے دوسرے سب سے خشک ترین مہینے کا سامنا کرنا پڑا، پورے مہینے میں صرف 3.0 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ آخری بار جموں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت میں اتنی کم بارش جنوری 2018 میں صرف 1.2 ملی میٹر بارش یا برف باری ہوئی تھی۔
تاہم برفباری کی کمی واحد غیر معمولی بات نہیں تھی، جنوری ماہ میں معمول کے برعکس درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ سرینگر میں11.9 ڈگری سینٹی گریڈ، شمال کشمیر کے گلمرگ میں 5.7 ڈگری سینٹی گریڈ اور رام بن ضلع کے بانہیال علاقے میں حیران کن طور پر 16.9 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ جموں شہر میں بھی جنوری ماہ میں چار دہائیوں کے سب سے زیادہ اوسط درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ آئی ایم ڈی نے جنوری 2024 کو جموں اور کشمیر کے بیشتر علاقوں کے لیے پچھلے 43 برسوں میں سب سے خشک اور گرم ترین قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں: خشک سالی کے باوجود کشمیر میں لاکھوں مہمان پرندوں کی آمد
دوسری جانب، جموں میں جنوری میں اوسط درجہ حرارت 13.4 ڈگری سیلسیش ریکارڈ ہوا جو 1983 کے بعد سب سے کم درجہ حرارت ہے، جس سے خطے میں طویل مدتی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ جنوری کا اوسط کم سے کم درجہ حرارت سری نگر، جموں، گلمرگ اور بانہال میں بالترتیب منفی 3.2 ڈگری سیلسیس، 5.5 ڈگری سیلسیس، منفی 3.9 ڈگری سیلسیس، اور 0.1 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ موسم سرما نہ صرف برفباری پر بہت زیادہ انحصار کرنے والی سیاحت کی صنعت کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ پانی کے وسائل اور زراعت کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔