بڈگام: وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع کے وراگام گاؤں میں برسوں سے ہاتھوں سے بننے ٹوپی کے دستکار اس ہنر کو اب تک محفوظ رکھے ہیں۔ کشمیر میں وراگام گاؤں واحد ایک ایسی جگہ ہے، جہاں پچھلے 200 برسوں سے یہ روایتی ٹوپیاں تیار کی جا رہی ہیں۔
برسوں سے اس گاؤں کے لوگ اس فن سے اپنی روزی روٹی کماتے آرہے ہیں۔ پہلے اس ٹوپی بنانے کے کام کو گاؤں کے چھوٹے اور بڑے سبھی کیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ کام صرف گاؤں کے چند بزرگوں تک ہی محدود ہے، جس کی وجہ گورنمنٹ کی اس ہنر کی جانب عدم توجہی بتائی جا رہی ہے۔ اس ٹوپی بنانے کے ہنر کو امیرِ کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کشمیر لائے اور یہاں کے لوگوں کو علم و ادب کے ساتھ روزی روٹی کمانے کا ذریعہ بھی دیا۔
ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی کاریگر غلام احمد ملک نے بتایا کہ پہلے کشمیر میں ان روایتی ٹوپیوں کی مانگ بہت زیادہ تھی، لوگ اس کو پہننا زیادہ پسند کرتے تھے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنی ہوتی ہے اور اس پر باریکی سے کام ہوتا ہے۔ مگر زمانے کے ترقی پانے کے ساتھ ہی ان کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ اب بازاروں میں الگ الگ اقسام کی ٹوپیاں ملتی ہیں جنہیں لوگ پہننا پسند کرتے ہیں جو کہ مشین سے بنی ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آج کل کی نوجوان نسل اس ٹوپی بنانے کے ہنر کو اپنانے کو ترجیح نہیں دیتی ہے کیونکہ ایک ٹوپی تیار کرنے میں کافی وقت اور محنت لگتی ہیں۔ چونکہ وادی کشمیر میں اس فن کی اپنی اہمیت ہے جو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سیکھی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سی مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اس فن کے ساتھ وفا کیا اور اس نے ہمیں عزت اور روٹی دی۔
وراگام کے مشہور کاریگر صفدر لون نے ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جو روایتی ٹوپیاں کشمیر کے بزرگ پہنتے ہیں، وہ کشمیر کی پہچان ہے۔ جس کے ذریعے دنیا بھر میں کشمیریوں کی شناخت ہوتی ہے اور یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں یہ ٹوپی عزت اور وقار کی نمائندگی کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ان ٹوپیوں کے مختلف ڈیزائنز بناتے ہیں جو کہ روایتی طرز پر ہوتے ہیں۔ ڈیزائنوں کی اپنی مارکیٹ ڈیمانڈ ہے اور بوڑھے لوگ صرف ان ڈیزائنوں میں ان ٹوپیاں کو پہننے میں ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ ہم خریدار کے من پسند ڈیزائن اور سر کے سائز کے مطابق بھی ٹوپیاں بناتے ہیں تاکہ نوجوان نسل بھی اس ٹوپی کو استعمال کر کے اسے اپنے سر کی زینت بنائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹوپیوں کی قیمت 2000 سے 20,000 روپے کے درمیان ہے، جو 2,000 روپے سے 6,000 روپے کی قیمتوں والی ٹوپیاں ہیں وہ دو ماہ کے اندر تیار کی جا سکتی ہے۔ تاہم جن ٹوپیوں کی قیمت 7,000 سے 20,000 روپے ہے وہ چار سے چھ ماہ کی مدت کے اندر تیار کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ جو لوگ حج اور عمرہ پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ پہلے ہی آڈر دے کر یہ ٹوپیاں ہم سے خریدتے ہیں۔ یہاں کے ماہر کاریگروں کا مطالبہ ہے کہ اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے اور اس کو ایک نئی جہت بخشنے کے لیے حکومت کو ضروری اقدامات کرنے چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
- لکھنوی دوپلی ٹوپی عید اور ہولی میں کیوں استعمال ہوتی ہے
- اورنگ آباد کے بازاروں میں ہمہ اقسام کی ٹوپیاں دستیاب ہیں
اس فن کو فروغ دینے کے لیے یہاں کے کاریگروں کو کسی بھی سرکاری سکیم کے تحت شامل کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی اس کو جیو ٹیگنگ بھی دینی چاہیے۔ گورنمنٹ جہاں اس وقت دستکاروں کو ملکی و غیر ملکی سطحوں پر عزت افزائی کرتی ہے وہیں ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔