بڈگام: بڈگام اسمبلی حلقہ سے اپنی پارٹی کے امیدوار منتظر محی الدین کی عمر عبداللہ کو حمایت کرنے پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ریاستی ترجمان موہت بھان نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس کے دوران انہوں نے اپنی پارٹی لیڈر کی جانب سے عمر عبداللہ کو حمایت کرنے پر کئی سوالات اٹھائے۔ بڈگام اسمبلی حلقہ میں ایک نئی پیش رفت اس وقت دیکھی گئی جب جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے امیدوار منتظر محی الدین نے اپنی نامزدگی واپس لے لی اور نائب صدر جے کے نیشنل کانفرنس اور بڈگام اسمبلی حلقہ کے امیدوار عمر عبداللہ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ریاستی ترجمان موہت بھان نے پریس کانفرنس کے دوران ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس میں موجود ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ نیشنل کانفرنس کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائے گی جب کہ کہا جارہا تھا کہ یہ بی جے پی کی اے، بی اور سی ٹیمیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر اپنی پارٹی بی جے پی کی پراکسی ٹیم ہے اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے امیدواروں کی عمر عبداللہ کی حمایت کا سیدھا مطلب ہے کہ وہ خفیہ طور پر بی جے پی سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Interview With Muntazir Mohiuddin جموں و کشمیر میں مضبوط اختیارات رکھنے والی اسمبلی نہیں ہوگی |
واضح رہے کہ یو ٹی جموں و کشمیر کے وسطی ضلع میں انتخابات کی سرگرمیوں کے چلتے اپنی پارٹی (اے پی) کے رہنما منتظر محی الدین نے بڈگام حلقہ سے آئندہ انتخابات میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے امیدوار عمر عبداللہ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ منتظر محی الدین نے بڈگام کے عوام کی نمائندگی کے لیے عمر عبداللہ جیسے مضبوط لیڈر کی ضرورت کا حوالہ دیا، جو غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف چٹان بنے ہوئے ہیں۔
منتظر محی الدین نے کہا کہ کشمیر کے لوگوں سے ان کے حقوق چھین لیے گئے ہیں، اور یہ ضروری ہے کہ ایسے لیڈر کا انتخاب کیا جائے جو ان کے مفادات کے لیے لڑ سکے۔ منتظر محی الدین نے بتایا کہ دوستوں اور خیر خواہوں سے مشورہ کرنے کے بعد، میں نے عمر عبداللہ کے حق میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ میرے دوستوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کی حمایت درست فیصلہ ہے۔
منتظر محی الدین نے بڈگام کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ عمر عبداللہ کے پیچھے ریلی نکالیں، جنہیں انہوں نے "بے آوازوں کی آواز" قرار دیا۔ منتظر محی الدین نے بتایا کہ عمر عبداللہ کا تجربہ اور قائدانہ صلاحیتیں انہیں کشمیر کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مثالی امیدوار بناتی ہیں۔