سیول: جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور ہونے کے بعد سب کی نظریں آئینی عدالت پر ٹکی ہوئی ہیں جو صدر یون سک یول کے مواخذے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ یون کو معطل کر دیا گیا ہے جب کہ وزیر اعظم قائم مقام صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ہفتہ کو قومی اسمبلی نے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کر لی۔ یہ تجویز ان کے خلاف گزشتہ ہفتے مارشل لاء کا نفاذ کرنے کی وجہ سے لائی گئی تھی۔
یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق اب عدالت کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے 180 دن ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو منظور کیا جائے یا نہیں۔ اس کے تحت یا تو یون کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا یا پھر انہیں عہدے پر بحال کر دیا جائے گا۔ صدر کے خلاف آخری مواخذہ 2016 میں ہوا تھا، جب اس وقت کی صدر پارک گیون ہائے کو ان کی سیٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی کوریا کے صدرکو صرف چھ گھنٹوں میں مارشل لاء اٹھانا پڑا، ملک بھر میں جشن
عدالت کو سابق صدر پارک گیون ہائے کے خلاف پارلیمنٹ کی درخواست منظور کرنے میں 91 دن لگے تھے۔ آنجہانی سابق صدر روہ مو ہیون کے معاملے میں عدالت نے 63 دن کے غور و خوض کے بعد 2004 میں پارلیمنٹ کی مواخذے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
اگر یون کا مواخذہ کیا جاتا ہے تو جنوبی کوریا میں ان کے عہدہ چھوڑنے کے دو ماہ کے اندر صدارتی انتخابات کرانے ہوں گے۔ اس وقت تک وزیر اعظم ہان ڈک سو قائم مقام صدر کے طور پر کام کریں گے۔
مزید پڑھیں: جنوبی کوریا کے صدر نے بغاوت کے الزامات کو کیا مسترد، مارشل لاء کو گورننس کا عمل بتایا
واضح رہے کہ صدر یون نے 03 دسمبر بروز منگل کی رات ایمرجنسی مارشل لا کا اعلان کیا تھا، لیکن بدھ کو پارلیمنٹ میں اس کے خلاف ووٹ دینے کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ مارشل لاء صرف چند گھنٹوں کے لیے نافذ رہا۔ تاہم چند گھنٹوں کے لیے نافذ ہونے والے مارشل لاء نے جنوبی کوریا کی سیاست میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔