ETV Bharat / international

کیا اسرائیل اور حماس کے بیچ دوبارہ جنگ بندی مذاکرات شروع ہو پائیں گے؟ جانیے ثالثی ممالک نے کیا کہا - Gaza Ceasefire - GAZA CEASEFIRE

حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کے بعد سے غزہ جنگ بندی پر بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ ایسے میں مایوس ہو چکے ثالثوں نے اسرائیل اور حماس سے بنا کوئی بہانہ کئے بات چیت کی میز پر دوبارہ آنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جنگ بندی مذاکرات
جنگ بندی مذاکرات (AP)
author img

By AP (Associated Press)

Published : Aug 9, 2024, 12:02 PM IST

واشنگٹن: مصر، قطر اور امریکہ کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر اسرائیل اور حماس سے اگلے ہفتے غزہ کی جنگ پر تعطل کا شکار مذاکرات کی طرف واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ ثالثوں نے جمعرات کو کہا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی صرف تفصیلات پر بات چیت باقی ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ، "ضائع کرنے کے لئے مزید وقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی فریق کی طرف سے مزید تاخیر کے لئے کوئی عذر ہے۔"

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو کہا کہ، "امریکہ اور ثالثوں کی تجویز کے مطابق، اسرائیل - 15 اگست کو - مذاکراتی ٹیم کو اس جگہ بھیجے گا جس کا تعین کیا جائے گا تاکہ معاہدہ کے فریم ورک کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔"

صدر جو بائیڈن، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے امیر تمیم الثانی، غزہ میں 10 ماہ سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے بالواسطہ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔، 15 اگست کو دوحہ، قطر یا یا قاہرہ میں مذاکرات کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔

ایک سینئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ثالثوں کے دباؤ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں مخالفین کے درمیان عمل درآمد پر اختلاف کے صرف چار یا پانچ ایشوز کو حل کرنا باقی ہے۔

اہلکار نے مثال کے طور پر اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے تبادلے کے وقت کا حوالہ دیا۔

مصر، امریکہ اور قطر نے کہا کہ ان کے پاس باقی مسائل کے حل کے لیے اگلے ہفتے ہونے والے مذاکرات میں پیش کرنے کے لیے ایک تجویز تیار ہے۔

حماس کی جانب سے اس پیشکش پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تہران میں اس کے سرکردہ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل نے پورے خطے میں تناؤ بڑھا دیاہ ہے۔ جس میں اضافہ وسیع پیمانے پر جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس قتل کو بڑے پیمانے پر اسرائیل سے منسوب کیا گیا تھا، حالانکہ اسرائیل نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ 31 جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے باوجود حماس مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔

حماس کے فوجی سربراہ یحییٰ السنوار نے گروپ کے سیاسی رہنما کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

نتن یاہو کے ناقدین ان پر غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت میں سست روی کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ غزہ میں تقریباً دس مہینوں سے جاری اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 40,000 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ مہلوکین میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ جنگ کے دوران غزہ میں طبی خدمات دینے والے امریکی ڈاکٹروں کے مطابق مہلوکین کی تعداد 92 ہزار سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

واشنگٹن: مصر، قطر اور امریکہ کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر اسرائیل اور حماس سے اگلے ہفتے غزہ کی جنگ پر تعطل کا شکار مذاکرات کی طرف واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ ثالثوں نے جمعرات کو کہا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی صرف تفصیلات پر بات چیت باقی ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ، "ضائع کرنے کے لئے مزید وقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی فریق کی طرف سے مزید تاخیر کے لئے کوئی عذر ہے۔"

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو کہا کہ، "امریکہ اور ثالثوں کی تجویز کے مطابق، اسرائیل - 15 اگست کو - مذاکراتی ٹیم کو اس جگہ بھیجے گا جس کا تعین کیا جائے گا تاکہ معاہدہ کے فریم ورک کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔"

صدر جو بائیڈن، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے امیر تمیم الثانی، غزہ میں 10 ماہ سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے بالواسطہ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔، 15 اگست کو دوحہ، قطر یا یا قاہرہ میں مذاکرات کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔

ایک سینئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ثالثوں کے دباؤ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں مخالفین کے درمیان عمل درآمد پر اختلاف کے صرف چار یا پانچ ایشوز کو حل کرنا باقی ہے۔

اہلکار نے مثال کے طور پر اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے تبادلے کے وقت کا حوالہ دیا۔

مصر، امریکہ اور قطر نے کہا کہ ان کے پاس باقی مسائل کے حل کے لیے اگلے ہفتے ہونے والے مذاکرات میں پیش کرنے کے لیے ایک تجویز تیار ہے۔

حماس کی جانب سے اس پیشکش پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تہران میں اس کے سرکردہ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل نے پورے خطے میں تناؤ بڑھا دیاہ ہے۔ جس میں اضافہ وسیع پیمانے پر جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس قتل کو بڑے پیمانے پر اسرائیل سے منسوب کیا گیا تھا، حالانکہ اسرائیل نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ 31 جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے باوجود حماس مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔

حماس کے فوجی سربراہ یحییٰ السنوار نے گروپ کے سیاسی رہنما کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

نتن یاہو کے ناقدین ان پر غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت میں سست روی کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ غزہ میں تقریباً دس مہینوں سے جاری اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 40,000 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ مہلوکین میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ جنگ کے دوران غزہ میں طبی خدمات دینے والے امریکی ڈاکٹروں کے مطابق مہلوکین کی تعداد 92 ہزار سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.