ETV Bharat / international

اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیہ سے متعلق بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کرتا ہے: نتن یاہو

جمعرات کو ایک فون کال میں، صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کو ایک بار پھر خبردار کیا کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے "قابل اعتماد اور قابل عمل منصوبے" کے بغیر رفح میں فوجی آپریشن انجام نہ دے۔ اگلے دن کے اوائل میں، اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعہ کے طویل مدتی حل کے لیے "بین الاقوامی حکم نامے" کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By AP (Associated Press)

Published : Feb 16, 2024, 12:26 PM IST

Updated : Feb 16, 2024, 12:50 PM IST

یروشلم: اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تنازع کے حل کے حوالے سے بین الاقوامی حکم نامے کے طور پر پیش کیے جا رہے اقدامات کو قبول نہیں کرے گا۔ ایکس پر جمعہ کے اوائل میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ایک پوسٹ شیئر کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ، ایسی قرارداد صرف مذاکرات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کرتا ہے، اور ایسا مانتا ہے کہ، یہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد عسکریت پسند گروپ حماس کے لیے بہت بڑا انعام ہوگا۔

(پوسٹ کا ترجمہ:کابینہ کے اجلاس میں میں نے اسرائیل پر فلسطینی ریاست مسلط کرنے کی حالیہ بات چیت کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا۔

میرے موقف کا خلاصہ درج ذیل دو جملوں میں ہے:

1. اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیہ کے حوالے سے بین الاقوامی احکامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اس طرح کے انتظامات صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ہوں گے، بغیر کسی پیشگی شرط کے۔

2. اسرائیل فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت جاری رکھے گا۔ 7 اکتوبر کے قتل عام کے تناظر میں اس طرح کی پہچان دہشت گردی کو بہت بڑا انعام دے گی اور مستقبل میں کسی بھی امن معاہدے کو روکے گی۔)

نتن یاہو دائیں بازو کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جو اسرائیل کے شانہ بشانہ قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کے اقتدار کے دوران، فلسطینیوں کے ساتھ کوئی اہم اعلیٰ سطحی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں۔ نتن یاہو کا ماننا ہے کہ انھیں فخر ہے کہ انھوں نے فلسطینی ریاست کو روکنے میں کئی سالوں سے اہم کردار ادا کیا ہے۔

دو ریاستی حل کو وسیع پیمانے پر بین الاقوامی حمایت حاصل ہے، لیکن بین الاقوامی سفارتی کوششیں طویل عرصے سے غیر فعال تھیں، جس میں یکے بعد دیگرے امریکی صدور بظاہر پیچیدہ تنازعہ پر سیاسی سرمایہ خرچ کرنے سے گریزاں تھے۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد بہت کچھ بدل گیا جس نے غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی تباہ کن جنگ شروع کی۔ مغربی سفارت کاروں نے جنگ کے بعد کے منظر نامے کے ایک حصے کے طور پر فلسطینی ریاست کے لیے دوبارہ زور دینا شروع کیا ہے۔ ایک عبوری فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک عبوری اقدام ہے جس میں برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ بھی شامل ہیں۔

نتن یاہو نے جمعہ کو لکھا کہ "اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیہ کے حوالے سے بین الاقوامی احکامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

یروشلم: اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تنازع کے حل کے حوالے سے بین الاقوامی حکم نامے کے طور پر پیش کیے جا رہے اقدامات کو قبول نہیں کرے گا۔ ایکس پر جمعہ کے اوائل میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ایک پوسٹ شیئر کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ، ایسی قرارداد صرف مذاکرات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کرتا ہے، اور ایسا مانتا ہے کہ، یہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد عسکریت پسند گروپ حماس کے لیے بہت بڑا انعام ہوگا۔

(پوسٹ کا ترجمہ:کابینہ کے اجلاس میں میں نے اسرائیل پر فلسطینی ریاست مسلط کرنے کی حالیہ بات چیت کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا۔

میرے موقف کا خلاصہ درج ذیل دو جملوں میں ہے:

1. اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیہ کے حوالے سے بین الاقوامی احکامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اس طرح کے انتظامات صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ہوں گے، بغیر کسی پیشگی شرط کے۔

2. اسرائیل فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت جاری رکھے گا۔ 7 اکتوبر کے قتل عام کے تناظر میں اس طرح کی پہچان دہشت گردی کو بہت بڑا انعام دے گی اور مستقبل میں کسی بھی امن معاہدے کو روکے گی۔)

نتن یاہو دائیں بازو کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جو اسرائیل کے شانہ بشانہ قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کے اقتدار کے دوران، فلسطینیوں کے ساتھ کوئی اہم اعلیٰ سطحی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں۔ نتن یاہو کا ماننا ہے کہ انھیں فخر ہے کہ انھوں نے فلسطینی ریاست کو روکنے میں کئی سالوں سے اہم کردار ادا کیا ہے۔

دو ریاستی حل کو وسیع پیمانے پر بین الاقوامی حمایت حاصل ہے، لیکن بین الاقوامی سفارتی کوششیں طویل عرصے سے غیر فعال تھیں، جس میں یکے بعد دیگرے امریکی صدور بظاہر پیچیدہ تنازعہ پر سیاسی سرمایہ خرچ کرنے سے گریزاں تھے۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد بہت کچھ بدل گیا جس نے غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی تباہ کن جنگ شروع کی۔ مغربی سفارت کاروں نے جنگ کے بعد کے منظر نامے کے ایک حصے کے طور پر فلسطینی ریاست کے لیے دوبارہ زور دینا شروع کیا ہے۔ ایک عبوری فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایک عبوری اقدام ہے جس میں برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ بھی شامل ہیں۔

نتن یاہو نے جمعہ کو لکھا کہ "اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیہ کے حوالے سے بین الاقوامی احکامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : Feb 16, 2024, 12:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.