ETV Bharat / bharat

مذہبی مقامات ایکٹ معاملہ: اسد الدین اویسی کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت - PLACES OF WORSHIP ACT

سپریم کورٹ آج عبادت گاہوں کے قانون معاملے میں اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی کی عرضی پر سماعت کرے گا۔

اسد الدین اویسی کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت
اسد الدین اویسی کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 2, 2025, 7:49 AM IST

نئی دہلی: سپریم کورٹ آج دو جنوری کو اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی کی درخواست پر سماعت کرے گا جس میں پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو نافذ کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کے وقت مذہبی مقامات کی جو پہچان تھی، اس کو برقرار رکھا جائے۔ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی یہ عرضی 17 دسمبر کو ایڈووکیٹ فضیل احمد ایوبی کے توسط سے داخل کی تھی۔

تاہم، 12 دسمبر کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں دائر درخواستوں کی سنوائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ نے تمام عدالتوں کو مذہبی مقامات خاص طور سے مساجد اور درگاہوں پر نئے مقدمات کی سماعت کرنے اور زیر التواء مقدمات میں کوئی عبوری یا حتمی حکم دینے سے روک دیا۔

سابقہ سنوائی کے دوران سی جے آئی کی زیرقیادت بنچ نے کہا کہ "چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا اور اس عدالت کے اگلے حکم تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔" سپریم کورٹ نے مختلف ہندو جماعتوں کی طرف سے دائر تقریباً 18 مقدمات کی کارروائی روک دی جس میں 10 مساجد کے اصل مذہبی کردار کا پتہ لگانے کے لیے سروے کی درخواست کی گئی تھی، جن میں وارانسی میں گیان واپی، متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے علاوہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ملک میں عدالتیں مذہبی مقامات سے متعلق مقدمات پر حکم جاری نہ کریں

خصوصی بنچ، جس میں جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن بھی شامل تھے، تقریباً چھ درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں وکیل اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی سرکردہ درخواست بھی شامل تھ۔ ہندو فریق کی ان درخواستوں میں مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے درخواست گزاروں کا موقف ہے ان دفعات نے مذہبی کی عبادت گاہ پر کسی بھی شخص یا ادارے کے دوبارہ دعویٰ کرنے کے قانونی چارہ جوئی کا حق چھین لیا گیا ہے۔ وہیں مسلم فریق کے عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ مذہبی مقامات ایکٹ کو سختی سے نافذ کیا جائے اور مذہبی مقامات پر دائر کیے گئے تمام مقدمات اور دعووں کو خارج کیا جائے۔

1991 کا یہ قانون کسی بھی عبادت گاہ کے کردار کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے اور 15 اگست 1947 کو کسی بھی عبادت گاہ کا جو مذہبی کردار تھا اسے برقرار رکھنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اویسی نے اپنی عرضی میں مرکز سے اس ایکٹ پر موثر عمل آوری کو یقینی کی درخواست کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوپی میں مساجد کے سروے پر اے آئی ایم آئی ایم کے ترجمان ناراض، عبادت گاہوں کے قانون کا خیال نہ رکھنے کا الزام

نئی دہلی: سپریم کورٹ آج دو جنوری کو اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی کی درخواست پر سماعت کرے گا جس میں پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کو نافذ کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کے وقت مذہبی مقامات کی جو پہچان تھی، اس کو برقرار رکھا جائے۔ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی یہ عرضی 17 دسمبر کو ایڈووکیٹ فضیل احمد ایوبی کے توسط سے داخل کی تھی۔

تاہم، 12 دسمبر کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں دائر درخواستوں کی سنوائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ نے تمام عدالتوں کو مذہبی مقامات خاص طور سے مساجد اور درگاہوں پر نئے مقدمات کی سماعت کرنے اور زیر التواء مقدمات میں کوئی عبوری یا حتمی حکم دینے سے روک دیا۔

سابقہ سنوائی کے دوران سی جے آئی کی زیرقیادت بنچ نے کہا کہ "چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا اور اس عدالت کے اگلے حکم تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔" سپریم کورٹ نے مختلف ہندو جماعتوں کی طرف سے دائر تقریباً 18 مقدمات کی کارروائی روک دی جس میں 10 مساجد کے اصل مذہبی کردار کا پتہ لگانے کے لیے سروے کی درخواست کی گئی تھی، جن میں وارانسی میں گیان واپی، متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے علاوہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ملک میں عدالتیں مذہبی مقامات سے متعلق مقدمات پر حکم جاری نہ کریں

خصوصی بنچ، جس میں جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن بھی شامل تھے، تقریباً چھ درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں وکیل اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی سرکردہ درخواست بھی شامل تھ۔ ہندو فریق کی ان درخواستوں میں مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے درخواست گزاروں کا موقف ہے ان دفعات نے مذہبی کی عبادت گاہ پر کسی بھی شخص یا ادارے کے دوبارہ دعویٰ کرنے کے قانونی چارہ جوئی کا حق چھین لیا گیا ہے۔ وہیں مسلم فریق کے عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ مذہبی مقامات ایکٹ کو سختی سے نافذ کیا جائے اور مذہبی مقامات پر دائر کیے گئے تمام مقدمات اور دعووں کو خارج کیا جائے۔

1991 کا یہ قانون کسی بھی عبادت گاہ کے کردار کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے اور 15 اگست 1947 کو کسی بھی عبادت گاہ کا جو مذہبی کردار تھا اسے برقرار رکھنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اویسی نے اپنی عرضی میں مرکز سے اس ایکٹ پر موثر عمل آوری کو یقینی کی درخواست کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوپی میں مساجد کے سروے پر اے آئی ایم آئی ایم کے ترجمان ناراض، عبادت گاہوں کے قانون کا خیال نہ رکھنے کا الزام

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.