نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چور کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کو آئینی قرار دے دیا۔ اس دفعہ کے مطابق 1966 اور 1971 کے درمیان بنگلہ دیش سے آسام آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 4:1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، جس میں چیف جسٹس چندر چوڑ کے ساتھ جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش اور منوج مشرا شامل ہیں جبکہ جسٹس جے بی پارڈیو والا نے اختلافی رائے دی۔
یہ دفعہ آسام معاہدے کے بعد 1985 میں متعارف کرائی گئی تھی، جو کہ راجیو گاندھی حکومت اور آسام تحریک کے رہنماؤں کے درمیان آسام کی ثقافت، وراثت، لسانی اور سماجی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے طے پایا تھا۔ دفعہ 6A کے تحت آسام میں 25 مارچ 1971 سے پہلے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کے لیے رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنے کی اجازت ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں چیف جسٹس چندر چور نے کہا کہ دفعہ 6A کو پارلیمنٹ نے متوازن انسانی ہمدردی کے ساتھ آسام کی مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے وضع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آسام معاہدہ ایک سیاسی حل تھا جبکہ دفعہ 6A ایک قانونی حل فراہم کرتا ہے۔‘‘ بینچ نے مزید وضاحت دی کہ اس فیصلے کا اطلاق صرف آسام پر ہوتا ہے اور اس میں دیگر ریاستوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، جسٹس پارڈیو والا نے اپنی اختلافی رائے میں دفعہ 6A کو غیر آئینی قرار دیا۔
اس تاریخی فیصلے کا مقصد آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کے مسائل کو حل کرنا ہے جو کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ریاست کے ثقافتی اور جغرافیائی توازن کو متاثر کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آسام شہریت معاملہ: جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل بحث کریں گے