احمدآباد: وزارت خارجہ نے اتوار کے روز کہا کہ گجرات حکومت احمد آباد کی ایک یونیورسٹی میں تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے جس میں دو غیر ملکی طلباء زخمی ہوئے تھے۔
وزارت خارجہ کا بیان اس وقت آیا جب گجرات پولیس نے کہا کہ اس نے اس واقعہ میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا ہے اور مزید کی تلاش کر رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ تشدد میں زخمی ہونے والے دو غیر ملکی طلباء میں سے ایک کو ہسپتال سے ڈسچارج بھی کر دیا گیا ہے۔
احمد آباد کے پولیس کمشنر جی ایس ملک کے مطابق، یہ واقعہ ہفتہ کی رات تقریباً 10.50 بجے پیش آیا جب احمد آباد میں گجرات یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل کے احاطے میں تقریباً 20 سے 25 لوگ داخل ہوئے اور یونیورسٹی میں غیرملکی طلبہ کی نماز پر اعتراض کرتے ہوئے ان سے بحث کی اور ان پر حملہ بھی کردیا۔
پولیس نے بتایا کہ زخمی ہونے والے دو طالب علم میں ایک کا تعلق سری لنکا سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق تاجکستان سے ہے۔ تعزیرات ہند کے تحت 20 سے 25 نامعلوم ملزمین کے خلاف فسادات، غیر قانونی اجتماع، املاک کو نقصان پہنچانے، اور مجرمانہ کاروائیوں کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دو افراد کی شناخت ہتیش میواڈا اور بھرت پٹیل کے طور پر بھی کی گئی ہے۔ جن کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق یونیورسٹی میں تقریباً 300 غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں افغانستان، تاجکستان، سری لنکا اور افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ تقریباً 75 بین الاقوامی طلباء یونیورسٹی کے اے بلاک ہاسٹل میں مقیم ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ اہلکار نے کہا کہ واقعے میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
پولیس کمشنر ملک نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے نو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ ہرش سنگھوی نے پولیس افسران کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں اس معاملے میں سخت اور عدالتی کارروائی کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔
گجرات یونیورسٹی کی وائس چانسلر نیرجا گپتا نے کہا کہ اے بلاک ہاسٹل کے احاطے میں دو گروپوں میں تصادم ہوا جہاں 75 غیر ملکی طلباء قیام پذیر تھے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ حکومت اور پولیس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔
دراصل گجرات یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ہاسٹل اے بلاک میں افریقہ، ازبکستان تنزانیہ اور افغانستان سمیت کئی ممالک کے ایک درجن سے زائد طلبا تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی وقت ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد نے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے ان طلبا پر حملہ کر دیا اور ہاسٹل احاطہ میں موجود گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
اس حملے میں چار طلبہ زخمی ہوئے جنہیں ایس پی ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ ایسے میں غیر ملکی طلبہ کی سیکورٹی کے تعلق سے گجرات پولیس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
گجرات پولیس کو اس معاملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی ایک ٹیم ہاسٹل پہنچی جہاں دوسری ٹیم کو ایس او پی اسپتال بھیجا گیا۔ پولیس نے زخمی طلبہ سے پوچھ گچھ کے بعد یہ جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہے کہ کیا یہ واقعی میں کوئی مذہبی مسئلہ تھا؟
اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد رکن اسمبلی عمران کھیڑا والا اور سابق رکن اسمبلی غیاث الدین شیخ نے ایس وی پی ہاسپٹل میں غیر ملکی طلبہ سے ملاقات کی اور اس واقعے کی مذمت کی۔
اس تعلق سے سابق رکن اسمبلی غیاث الدین شیخ نے کہا کہ گجرات یونیورسٹی میں کل رات 10 بجے ایک بہت ہی تکلیف دہ معاملہ سامنے آیا ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر وہاں پر غیر ملکی طلبہ نماز ادا کر رہے تھے کہ اسی وقت ان نماز ادا کرنے والے طلبہ پر حملہ کیا گیا۔ ان کے رومس میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
غیاث الدین شیخ نے مزید کہا کہ ''غیر ملکی طلبہ نے پولیس کو فون کیا، پولیس کی موجودگی میں بھی شرپسند طلبا پر حملہ کر رہے تھے لیکن پولیس نے ان کو پکڑنے کی بجائے ان کو وہاں سے جانے دیا یہ بہت بڑی دکھ کی بات ہے، ہماری مانگ ہے کہ غیر ملکی طلبہ پر حملہ کرنے والے اور قانونی فرض نہ نبھانے پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے''۔
اسی معاملے پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ ورکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایکس پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، وزیراعظم مودی اور مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں کہا کہ ''انتہائی شرم کی بات ہے کہ آپ کی عقیدت اور مذہبی نعرے تب نکلتے ہیں جب مسلمان پرامن طریقے سے اپنے مذہب پر عمل کررہے ہوتے۔ جب آپ مسلمانوں کو دیکھ کر ناقابل بیان غصے میں آجاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر یہ بنیاد پرستی نہیں تو کیا ہے؟''۔ اویسی نے مزید کہا کہ ''اندرون ملک مسلم دشمنی بھارت کی خیر سگالی کو تباہ کر رہی ہے''۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے ایک کالج میں کشمیری طلباء پر مبینہ طور حملہ، 14افراد معطل