ETV Bharat / bharat

سنبھل تشدد: آج کھلے تعلیمی ادارے، انٹرنیٹ سروس بند، سماجوادی پارٹی کا وفد کرے گا دورہ - SAMBHAL VIOLENCE

سنبھل میں تیسرے دن اسکول اور کالج کھلے۔ لیکن انٹرنیٹ بند ہے۔ ڈی ایم نے نقصان کی بھرپائی شرپسندوں سے کرنے کی بات کہی ہے۔

سنبھل میں تیسرے دن کھلے تعلیمی ادارے، انٹرنیٹ سروس بند
سنبھل میں تیسرے دن کھلے تعلیمی ادارے، انٹرنیٹ سروس بند (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 26, 2024, 11:44 AM IST

سنبھل: ضلع عدالت کے حکم پر سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں 24 نومبر کو ہوئے تشدد کے تیسرے دن منگل کو امن بحال ہوا ہے۔ اسکول اور کالج کھل گئے ہیں لیکن انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ بازار ابھی پوری طرح نہیں کھلے ہیں۔ جامع مسجد کے قریب پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

کوتوالی اور نخاسہ تھانے میں درج ہونے والے کل سات مقدمات میں 2750 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق اور ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال سمیت چھ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے رات بھر چھاپے مارتی رہی۔

ایک روز قبل پولیس نے جامع مسجد صدر ایڈووکیٹ ظفر علی کو پیر کو حراست میں لیا تھا۔ تاہم بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ ظفر نے سنبھل تشدد کے لیے ڈاکٹر وندنا مشرا اور سی او انوج چودھری کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

دوسری جانب، سنبھل کے ڈی ایم ڈاکٹر راجندر پنسیا نے کہا ہے کہ تشدد کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی شرپسندوں سے کی جائے گی۔ اس واقعہ پر سیاسی ماحول بھی گرم ہے۔ آج سماجوادی پارٹی کا ایک وفد سنبھل پہنچے گا، جس میں راجیہ سبھا ایم پی جاوید علی، ایم ایل اے پنکی یادو، ایم ایل اے اقبال محمود، ایم پی ضیاء الرحمن سمیت کئی لیڈر شامل ہوں گے۔

19 نومبر کو ہندو فریق نے ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہی جامع مسجد ہری ہر مندر ہے۔ ہندو فریق کے اس دعوے کی بنیاد پر ضلع عدالت نے سروے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی روز ایک سروے بھی کیا گیا جس کے بعد سیاسی گھمسان مچ گیا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اس معاملے میں سروے رپورٹ آج عدالت میں پیش کی جانی ہے، جب کہ اس معاملے پر اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق سنبھل کی شاہی جامع مسجد تقریباً 500 سال پرانی ہے۔ اس عمارت کو 1920 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا۔ سنبھل کی جامع مسجد کا ذکر بابرنامہ میں ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سنبھل: ضلع عدالت کے حکم پر سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں 24 نومبر کو ہوئے تشدد کے تیسرے دن منگل کو امن بحال ہوا ہے۔ اسکول اور کالج کھل گئے ہیں لیکن انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ بازار ابھی پوری طرح نہیں کھلے ہیں۔ جامع مسجد کے قریب پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

کوتوالی اور نخاسہ تھانے میں درج ہونے والے کل سات مقدمات میں 2750 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق اور ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال سمیت چھ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے رات بھر چھاپے مارتی رہی۔

ایک روز قبل پولیس نے جامع مسجد صدر ایڈووکیٹ ظفر علی کو پیر کو حراست میں لیا تھا۔ تاہم بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ ظفر نے سنبھل تشدد کے لیے ڈاکٹر وندنا مشرا اور سی او انوج چودھری کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

دوسری جانب، سنبھل کے ڈی ایم ڈاکٹر راجندر پنسیا نے کہا ہے کہ تشدد کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی شرپسندوں سے کی جائے گی۔ اس واقعہ پر سیاسی ماحول بھی گرم ہے۔ آج سماجوادی پارٹی کا ایک وفد سنبھل پہنچے گا، جس میں راجیہ سبھا ایم پی جاوید علی، ایم ایل اے پنکی یادو، ایم ایل اے اقبال محمود، ایم پی ضیاء الرحمن سمیت کئی لیڈر شامل ہوں گے۔

19 نومبر کو ہندو فریق نے ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہی جامع مسجد ہری ہر مندر ہے۔ ہندو فریق کے اس دعوے کی بنیاد پر ضلع عدالت نے سروے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی روز ایک سروے بھی کیا گیا جس کے بعد سیاسی گھمسان مچ گیا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اس معاملے میں سروے رپورٹ آج عدالت میں پیش کی جانی ہے، جب کہ اس معاملے پر اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق سنبھل کی شاہی جامع مسجد تقریباً 500 سال پرانی ہے۔ اس عمارت کو 1920 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا۔ سنبھل کی جامع مسجد کا ذکر بابرنامہ میں ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.