ETV Bharat / jammu-and-kashmir

بارہویں تک نہ تو لکھنے اور نہ ہی اردو پڑھنے سے دلچسپی تھی، افسانہ نگار سہیل سالم - FICTION WRITER SUHAIL SALIM

جموں کشمیر اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کی ثقافت باصلاحیت فنکار شاعراور رائٹرس سے بھی جاناجاتا ہےجن میں سے ایک رائٹڑسہیل سالم بھی ہیں

کشمیر کے باصلاحیت مصنف کوبارہویں تک نہ تو لکھنے اور نہ ہی اردو پڑھنے سے دلچسپی تھی۔ افسانہ نگار سہیل سالم
کشمیر کے باصلاحیت مصنف کوبارہویں تک نہ تو لکھنے اور نہ ہی اردو پڑھنے سے دلچسپی تھی۔ افسانہ نگار سہیل سالم (ETV B HARAT)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 18, 2025, 5:26 PM IST

Updated : Feb 18, 2025, 6:36 PM IST

سرینگر(پرویز الدین) : وادی کشمیر میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور باصلاحیت نوجوان مصنفین کے لئے ایک بہتر پلیٹ فارم کے لیے کئی لوگ بہترین کام انجام دے رہیں ہیں۔ان میں افسانہ نگار، مدیر اور مضمون نگار سہیل سالم کا نام بھی قابل ذکر ہیں۔

اس نوجوان افسانہ نگار کے اب تک تقریباً 150 افسانے اور تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور اپریل میں " ابن مریم کی واپسی" عنوان کے تحت ان کی چوتھی کتاب منظر عام پر آرہی ہے۔

اس کے ادبی سفر اور اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی خدمات سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے سہیل سالم کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

افسانہ نگار سہیل سالم (Video Source: ETV Bharat)


سہیل سالم نے بتایا کہ اردو مضمون ہونے کے باوجود بھی بارہویں جماعت تک مجھے اردو لکھنے اور پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ کالج میں ایک اردو پروفیسر کی نصیحت نے مجھے اردو کی طرف متوجہ کیا۔اس قبل میں اردو کلاس بغیر کتاب کے ہی ایٹنڈ کرتا تھا لیکن اس اردو پروفیسر کی نصیحت کہ مواد اور متن سامنے ہونا چائیے تب جاکر اردو شاعری یا کہانیوں کو بہتر طور پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے اور جب میں نے اس نصیحت پر عمل کیا تو واقعی مجھے ویسا ہی تجربہ ہوا۔


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں میری پہلی تخلیق "بوڑھی ماں" کے عنوان سے ایک نظم کی صورت میں سامنے آئی جو کہ بعد میں مجھے یونیورسٹی کی ہفتے وار بزم پڑھنے کا موقع ملا۔لیکن میرا پہلا افسانہ" ریزہ ریزہ خواب" سال 2016 میں شائع ہوا جو کہ ایک حقیقی واقع پر مبن تھی اور پہلی کتاب "جموں وکشمیر کے خواتین افسانہ نگار" تحقیق پر مبنی جو کہ سال 2019 میں مناظر عام پر آئی۔ اس کے بعد ان کی مزید دو کتابیں بھی شائع ہوئیں جن میں "حرف شرین" اور"تبسم ضیاء کے افسانے" شامل ہیں۔ دونوں کتابیں خواتین کی شاندار صلاحیتوں کا مظاہرے کو اجاگر کرتی ہیں۔

سرینگر کے رعناواری سرینگر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ سہیل سالم نے نہ اپنے خیالات اور اردگرد کے حالات و واقعات کو افسانے کی شکل میں تحریر کرتے ہیں بلکہ یہ سہ ماہی ایک میگزین بھی شائع کرتے ہیں اور اس میں ادب کے تئیں دلچسپی رکھنے نوجوان کی تحریروں کو جگہ دی جاتی ہیں۔


نئی نسل کو اس بھرپور زبان سے منسلک کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے "کوہ مراں” کا تصور پیش کیا اور اس سہ ماہی کا پہلا شمارہ سال 2021 میں شائع ہوا۔انہوں نے کہا کہ ”کوہِ مراں” نہ صرف ابھرتے ہوئے ادیبوں بلکہ معروف ادبی شخصیات کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے اور اب تک 12 شمارے شائع ہیں ہوچکے۔


سہیل سالم کا کہنا ہے کہ اردو ادب دانشمندی، جذبات اور ثقافتی ورثے کا خزانہ ہے۔" کوہ مراں" کے ذریعے ہم کشمیر میں اس زبان کی اہمیت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ باصلاحیت نوجوان مصنفین کے لیے کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر کر سکیں اور ہمارے خطے کے ادبی منظر نامے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

اردو ادب کے فروغ کے اپنے سفر میں سہیل کی شائع کردہ کتابوں میں خواتین افسانہ نگاروں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان کی اشاعتوں میں "حرفی شہرین” اور "تبسم ضیاء کے افسانے” کتابوں کے نام قابل ذکر ہیں۔سہیل سالم کے مختلف موضوعات پر اب تک تقریباً 300 مضامین مقامی اور قومی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ایسے میں انہوں نے سماجی، ثقافتی اور ادبی موضوعات پر بصیرت انگیز نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ان کی فکر انگیز تحریروں نے ساتھی علماء اور قارئین کی توجہ اور احترام حاصل کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ترال ناگہ واڈی علاقے میں بارودی سرنگ برآمد، ناکارہ بنانے کی کوششیں جاری

کشمیر میں اردو ادب اور افسانہ نگاری کے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں اردو ادب اور افسانہ نگاری کا مستقبل تابناک ہے۔کیونکہ نہ صرف یہاں اردو پڑھنے والے ہیں بلکہ نئے لکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ سہیل سالم کو اب تک کئی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔جن میں فرید پربتی میموریل ایوارڈ، عمر مجید یوا پرسکار ،نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈ اور رابندر ناتھ ٹیگور انعام وغیرہ شامل ہیں۔

سرینگر(پرویز الدین) : وادی کشمیر میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور باصلاحیت نوجوان مصنفین کے لئے ایک بہتر پلیٹ فارم کے لیے کئی لوگ بہترین کام انجام دے رہیں ہیں۔ان میں افسانہ نگار، مدیر اور مضمون نگار سہیل سالم کا نام بھی قابل ذکر ہیں۔

اس نوجوان افسانہ نگار کے اب تک تقریباً 150 افسانے اور تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور اپریل میں " ابن مریم کی واپسی" عنوان کے تحت ان کی چوتھی کتاب منظر عام پر آرہی ہے۔

اس کے ادبی سفر اور اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی خدمات سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے سہیل سالم کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

افسانہ نگار سہیل سالم (Video Source: ETV Bharat)


سہیل سالم نے بتایا کہ اردو مضمون ہونے کے باوجود بھی بارہویں جماعت تک مجھے اردو لکھنے اور پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ کالج میں ایک اردو پروفیسر کی نصیحت نے مجھے اردو کی طرف متوجہ کیا۔اس قبل میں اردو کلاس بغیر کتاب کے ہی ایٹنڈ کرتا تھا لیکن اس اردو پروفیسر کی نصیحت کہ مواد اور متن سامنے ہونا چائیے تب جاکر اردو شاعری یا کہانیوں کو بہتر طور پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے اور جب میں نے اس نصیحت پر عمل کیا تو واقعی مجھے ویسا ہی تجربہ ہوا۔


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں میری پہلی تخلیق "بوڑھی ماں" کے عنوان سے ایک نظم کی صورت میں سامنے آئی جو کہ بعد میں مجھے یونیورسٹی کی ہفتے وار بزم پڑھنے کا موقع ملا۔لیکن میرا پہلا افسانہ" ریزہ ریزہ خواب" سال 2016 میں شائع ہوا جو کہ ایک حقیقی واقع پر مبن تھی اور پہلی کتاب "جموں وکشمیر کے خواتین افسانہ نگار" تحقیق پر مبنی جو کہ سال 2019 میں مناظر عام پر آئی۔ اس کے بعد ان کی مزید دو کتابیں بھی شائع ہوئیں جن میں "حرف شرین" اور"تبسم ضیاء کے افسانے" شامل ہیں۔ دونوں کتابیں خواتین کی شاندار صلاحیتوں کا مظاہرے کو اجاگر کرتی ہیں۔

سرینگر کے رعناواری سرینگر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ سہیل سالم نے نہ اپنے خیالات اور اردگرد کے حالات و واقعات کو افسانے کی شکل میں تحریر کرتے ہیں بلکہ یہ سہ ماہی ایک میگزین بھی شائع کرتے ہیں اور اس میں ادب کے تئیں دلچسپی رکھنے نوجوان کی تحریروں کو جگہ دی جاتی ہیں۔


نئی نسل کو اس بھرپور زبان سے منسلک کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے "کوہ مراں” کا تصور پیش کیا اور اس سہ ماہی کا پہلا شمارہ سال 2021 میں شائع ہوا۔انہوں نے کہا کہ ”کوہِ مراں” نہ صرف ابھرتے ہوئے ادیبوں بلکہ معروف ادبی شخصیات کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے اور اب تک 12 شمارے شائع ہیں ہوچکے۔


سہیل سالم کا کہنا ہے کہ اردو ادب دانشمندی، جذبات اور ثقافتی ورثے کا خزانہ ہے۔" کوہ مراں" کے ذریعے ہم کشمیر میں اس زبان کی اہمیت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ باصلاحیت نوجوان مصنفین کے لیے کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر کر سکیں اور ہمارے خطے کے ادبی منظر نامے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

اردو ادب کے فروغ کے اپنے سفر میں سہیل کی شائع کردہ کتابوں میں خواتین افسانہ نگاروں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان کی اشاعتوں میں "حرفی شہرین” اور "تبسم ضیاء کے افسانے” کتابوں کے نام قابل ذکر ہیں۔سہیل سالم کے مختلف موضوعات پر اب تک تقریباً 300 مضامین مقامی اور قومی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ایسے میں انہوں نے سماجی، ثقافتی اور ادبی موضوعات پر بصیرت انگیز نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ان کی فکر انگیز تحریروں نے ساتھی علماء اور قارئین کی توجہ اور احترام حاصل کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ترال ناگہ واڈی علاقے میں بارودی سرنگ برآمد، ناکارہ بنانے کی کوششیں جاری

کشمیر میں اردو ادب اور افسانہ نگاری کے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں اردو ادب اور افسانہ نگاری کا مستقبل تابناک ہے۔کیونکہ نہ صرف یہاں اردو پڑھنے والے ہیں بلکہ نئے لکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ سہیل سالم کو اب تک کئی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔جن میں فرید پربتی میموریل ایوارڈ، عمر مجید یوا پرسکار ،نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈ اور رابندر ناتھ ٹیگور انعام وغیرہ شامل ہیں۔

Last Updated : Feb 18, 2025, 6:36 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.